Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اجتہاد و تقلید

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اجتہاد و تقلید




    کیا ائمہ اربعہ، پیغمبروں کے درجہ کے برابر ہیں؟
    س…کیا پیغمبروں کے درجے کے برابر ہونے کے لئے کم سے کم امام (امام اعظم ابوحنیفہ، امام شافعی وغیرہ) کے برابر ہونا ضروری ہے؟
    ج… امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی تو امتی ہیں، اور کوئی امتی کسی نبی کی خاک پا کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
    کیا کسی ایک فقہ کو ماننا ضروری ہے؟
    س… کیا اسلام میں کسی ایک فقہ کو ماننا اور اس پر عمل کرنا لازمی ہے؟ یا اپنی عقل سے سوچ کر جس امام کی جو بات زیادہ مناسب لگے اس پر عمل کرنا جائز ہے؟
    ج… ایک فقہ کی پابندی واجب ہے، ورنہ آدمی خودرائی و خودغرضی کا شکار ہوسکتا ہے۔
    کسی ایک امام کی تقلید کیوں؟
    س… جب چاروں امام، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل برحق ہیں تو پھر ہمیں کسی ایک کی تقلید کرنا کیوں ضروری ہے؟ ان چاروں سے پہلے لوگ کن کی تقلید کرتے تھے؟
    ج… جب چاروں امام برحق ہیں تو کسی ایک کی تقلید حق ہی کی تقلید ہوگی، چونکہ بیک وقت سب کی تقلید ممکن نہیں لامحالہ ایک کی لازمی ہوگی۔
    دوم:…تقلید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ گمراہ ہوکر اتباعِ ہویٰ کا شکار نہ ہوجائے جبکہ ائمہ عظام سے پہلے کا دور خیرالقرون کا دور تھا، وہاں لوگ اپنی مرضی چلانے کے بجائے صحابہ کرام سے پوچھ لیتے تھے۔
    شرعاً جائز یا ناجائز کام میں ائمہ کا اختلاف کیوں؟
    س…اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں کام فلاں امام کے نزدیک جائز ہے، لیکن فلاں کے نزدیک جائز نہیں۔ دینی اعتبار سے کوئی بھی کام ہو دو باتیں ہی ممکن ہیں جائز یا ناجائز، لیکن یہاں بات مہمل سی ہے، اصل بات بتائیں، میں نے پہلے بھی کئی ایک سے پوچھا مگر کسی نے مجھے مطمئن نہیں کیا۔
    ج… بعض امور کے بارے میں تو قرآن کریم اور حدیث نبوی (صلی اللہ علیٰ صاحبہ وسلم) میں صاف صاف فیصلہ کردیا گیا ہے (اور یہ ہماری شریعت کا بیشتر حصہ ہے) ان امور کے جائز و ناجائز ہونے میں تو کسی کا اختلاف نہیں، اور بعض امور میں قرآن و سنت کی صراحت نہیں ہوتی، وہاں مجتہدین کو اجتہاد سے کام لے کر اس کے جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ علم و فہم اور قوتِ اجتہاد میں فرق ایک طبعی اور فطری چیز ہے، اس لئے ان کے اجتہادی فیصلوں میں اختلاف بھی ہے، اور یہ ایک فطری چیز ہے، اس کو چھوٹی سی دو مثالوں سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
    ا:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ایک مہم پر روانہ فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ عصر کی نماز فلاں جگہ جاکر پڑھنا۔ نماز عصر کا وقت وہاں پہنچنے سے پہلے ختم ہونے لگا تو صحابہ کی دو جماعتیں ہوگئیں، ایک نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچ کر نمازِ عصر پڑھنے کا حکم فرمایا ہے، اس لئے خواہ نماز قضا ہوجائے مگر وہاں پہنچ کر ہی پڑھیں گے، دوسرے فریق نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشائے مبارک تو یہ تھا کہ ہم غروب سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جائیں، جب نہیں پہنچ سکے تو نماز قضا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
    بعد میں یہ قصہ بارگاہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش ہوا تو آپ نے دونوں کی تصویب فرمائی اور کسی پر ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا۔ دونوں نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق منشائے نبوی کی تعمیل کی (صلی اللہ علیہ وسلم)، اگرچہ ان کے درمیان جواز و عدمِ جواز کا اختلاف بھی ہوا۔ اسی طرح تمام مجتہدین اپنی اجتہادی صلاحیتوں کے مطابق منشائے شریعت ہی کی تعمیل کرنا چاہتے ہیں، مگر ان کے درمیان اختلاف بھی رونما ہوجاتا ہے، اور اس اختلاف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ برداشت فرمایا، بلکہ اس کو رحمت فرمایا، اور اس ناکارہ کو اس اختلاف کا رحمت ہونا اس طرح کھلی آنکھوں نظر آتا ہے جیسے آفتاب۔
    دوسری مثال:…ہمیں روز مرہ پیش آتی ہے کہ ایک ملزم کی گرفتاری کو ایک عدالت جائز قرار دیتی ہے اور دوسری ناجائز، قانون کی کتاب دونوں کے سامنے ایک ہی ہے، مگر اس خاص واقعہ پر قانون کے انطباق میں اختلاف ہوتا ہے، اور آج تک کسی نے اس اختلاف کو “مہمل بات” قرار نہیں دیا۔ چاروں ائمہ اجتہاد ہمارے دین کے ہائی کورٹ ہیں، جب کوئی متنازعہ فیہ مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوتا ہے تو کتاب و سنت کے دلائل پر غور کرنے کے بعد وہ اس کے بارے میں فیصلہ فرماتے ہیں۔ ایک کی رائے یہ ہوتی ہے کہ یہ جائز ہے، دوسرے کی رائے یہ ہوتی ہے کہ یہ ناجائز ہے، اور تیسرے کی رائے یہ ہوتی ہے کہ یہ مکروہ ہے، اور چونکہ سب کا فیصلہ اس امر کے قانونی نظائر اور کتاب و سنت کے دلائل پر مبنی ہوتا ہے، اس لئے سب کا فیصلہ لائق احترام ہے، گو عمل کے لئے ایک ہی جانب کو اختیار کرنا پڑے گا۔ یہ چند حروف قلم روک کر لکھے ہیں، زیادہ لکھنے کی فرصت نہیں، ورنہ یہ مستقل مقالے کا موضوع ہے۔
    کسی ایک فقہ کی پابندی عام آدمی کے لئے ضروری ہے
    مجتہد کے لئے نہیں
    س… کیا ہم پر ایک فقہ کی پابندی واجب ہے؟ کیا فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی، فقہ حنبلی یہ سب اسلام ہیں؟ حق تو صرف ایک ہوتا ہے؟
    کیا آپ کے ائمہ نے فقہ کو واجب قرار دیا ہے؟ امام شافعی نے امام ابوحنیفہ کے فقہ کی پابندی کیوں نہیں کی؟ ایک واجب چھوڑ کر گناہ گار ہوئے اور یہی نہیں بلکہ ایک نئی فقہ پیش کردی (نعوذ باللہ)۔
    ج… ایک مسلمان کے لئے خدا و رسول کے احکام کی پابندی لازم ہے۔ جو قرآن کریم اور حدیثِ نبوی سے معلوم ہوں گے، اور علم احکام کے لئے اجتہاد کی ضرورت ہوگی، اور صلاحیتِ اجتہاد کے لحاظ سے اہل علم کی دو قسمیں ہیں: مجتہد اور غیرمجتہد۔ مجتہد کو اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرنا لازم ہے اور غیرمجتہد کے لئے کسی مجتہد کی طرف رجوع کرنا ہے۔
    لقولہ تعالیٰ: “فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔” (النحل:۴۳)
    ولقولہ علیہ السلام: “الا سألوا اذ لم یعلموا فانما شفاء العي السوٴال۔” (ابوداوٴد ج:۱ ص:۴۹)
    ائمہ اربعہ مجتہد تھے، عوام الناس قرآن و حدیث پر عمل کرنے کے لئے ان مجتہدین سے رجوع کرتے ہیں، اور جو حضرات خود مجتہد ہوں ان کو کسی مجتہد سے رجوع کرنا نہ صرف غیرضروری بلکہ جائز بھی نہیں۔ اور کسی معین مجتہد سے رجوع اس لئے لازم ہے تاکہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے کے بجائے خواہش نفس کی پیروی نہ شروع ہوجائے کہ جو مسئلہ اپنی خواہش کے مطابق دیکھا وہ لے لیا۔ آنجناب اگر خود اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہوں تو اپنے اجتہاد پر عمل فرمائیں، میں نے جو لکھا وہ غیرمجتہد لوگوں کے بارے میں لکھا ہے۔
    کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے؟
    س… علماء کرام سے سنتے آئے ہیں کہ تیسری صدی کے بعد سے اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ اور اس کے بعد پیش آنے والے مسائل کے حل کی کیا صورت ہے؟
    ج… چوتھی صدی کے بعد اجتہادِ مطلق کا دروازہ بند ہوا ہے، یعنی اس کے بعد کوئی مجتہدِ مطلق پیدا نہیں ہوا، جہاں تک نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کا تعلق ہے ان پر ائمہ مجتہدین کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں غور کیا جائے گا اور اس کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔
    اجتہاد کا دروازہ بند ہوجانے کا یہ مطلب نہیں کہ چوتھی صدی کے بعد اجتہاد ممنوع قرار دے دیا گیا، بلکہ یہ مطلب ہے کہ اجتہادِ مطلق کے لئے جس علم و فہم، جس بصیرت و ادراک اور جس ورع و تقویٰ کی ضرورت ہے وہ معیار ختم ہوگیا اب اس درجہ کا کوئی آدمی نہیں ہوا جو اجتہادِ مطلق کی مسند پر قدم رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، شاید اس کی حکمت یہ تھی کہ اجتہاد سے جو کچھ مقصود تھا، یعنی قرآن و سنت سے شرعی مسائل کا استنباط وہ اصولاً و فروعاً مکمل ہوچکا تھا، اس لئے اب اس کی ضرورت باقی نہ تھی، ادھر اگر یہ دروازہ ہمیشہ کو کھلا رہتا تو امت کی اجتماعیت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، والله اعلم!
    چاروں اماموں کی بیک وقت تقلید
    س…عصر حاضر کے ایک مشہور واعظ ․․․․․․․․․․․․․․ فرماتے ہیں کہ وہ کسی ایک فقہ کے مقلد نہیں، بلکہ وہ پانچ ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری) کی پیروی کرتے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا بیک وقت ایک سے زائد فقہوں کی پیروی کی جاسکتی ہے؟ انسان حسبِ منشا کسی بھی فقہ کے فیصلہ کو اپناسکتا ہے؟ کیا یہ عمل کلی مقصد شریعت کے منافی نہیں؟
    ج… مسائل کی دو قسمیں ہیں: ایک تو وہ مسائل جو تمام فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہیں، ان میں تو ظاہر ہے کہ کسی ایک مسلک کی پیروی کا سوال ہی نہیں۔ دوسری قسم ان مسائل کی ہے جن میں فقہاء کا اجتہادی اختلاف ہے، ان میں بیک وقت سب کی پیروی تو ہو نہیں سکتی، ایک ہی کی پیروی ہوسکتی ہے، اور جس فقیہ کی پیروی کی جائے اس مسلک کے تمام شروط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ تمام مسائل میں ایک ہی فقہ کی پیروی کی جائے، اس میں سہولت بھی ہے، یکسوئی بھی ہے اور نفس کی بے قیدی سے امن بھی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک مسئلہ میں ایک فقیہ کی پیروی کرلی اور دوسرے مسئلہ میں دوسرے فقیہ کی، اس میں چند خطرات ہیں، ایک یہ کہ بعض اوقات ایسی صورت پیدا ہوجائے گی کہ اس کا عمل تمام فقہاء کے نزدیک غلط ہوگا، مثلاً: کوئی شخص یہ خیال کرے کہ چونکہ گاوٴں میں امام شافعی کے نزدیک جمعہ جائز ہے، اس لئے میں ان کے مسلک پر جمعہ پڑھتا ہوں، حالانکہ امام شافعی کے مسلک پر نماز صحیح ہونے کے لئے بعض شرائط ایسی ہیں جن کا اس کو علم نہیں، نہ اس نے ان شرائط کو ملحوظ رکھا، تو اس کا جمعہ نہ تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہوا اور نہ امام شافعی کے نزدیک ہوا۔
    دوسرا خطرہ یہ ہے کہ اس صورت میں نفس بے قید ہوجائے گا، جس مسلک کا جو مسئلہ اس کی پسند اور خواہش کے موافق ہوگا اس کو اختیار کرلیا کرے گا، یہ اتباعِ ہویٰ و نفس ہے۔
    تیسرا خطرہ یہ کہ بعض اوقات اس کو دو مسلکوں میں سے ایک کے اختیار کرنے میں تردد پیدا ہوجائے گا اور چونکہ خود علم نہیں رکھتا اس لئے کسی ایک مسلک کو ترجیح دینا مشکل ہوجائے گا، اس لئے ہم جیسے عامیوں کے لئے سلامتی اسی میں ہے کہ وہ ایک مسلک کو اختیار کریں اور یہ اعتقاد رکھیں کہ یہ تمام فقہی مسلک دریائے شریعت سے نکلی ہوئی نہریں ہیں۔

    قرآن اور حدیث کے ہوتے ہوئے چاروں فقہوں خصوصاً حنفی فقہ پر زور کیوں؟
    س… کوئی شخص فقہ حنفی سے تعلق رکھتا ہے لیکن اپنا مسئلہ فقہ مالکی سے حل کرانا چاہتا ہے، تو آپ اس کو روک دیتے ہیں۔ جس کی ایک وجہ تو یہ ہو کہ فقہ حنفی میں ہوتے ہوئے فقہ مالکی کی طرف اس لئے رجوع کر رہا ہو کہ اس میں نرمی ہو، تو اسی دائرہ (فقہ حنفی) میں رہتے ہوئے اسے ناجائز کہہ سکتے ہیں۔ لیکن قطع نظر ان ساری باتوں کے میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر ان ائمہ اربعہ کی فقہ کو مذہب کا درجہ کیوں دیا جاتا ہے کہ اس وقت چاروں اماموں کے ماننے والوں کے مابین اس قدر دوری ہے جبکہ ایک اچھے مسلمان کو ہر وہ بات جو کتاب و سنت کے نزدیک حقیقت ہو ماننی چاہئے اور فقہ کی اہمیت بہت زیادہ کردی گئی حالانکہ اللہ اور رسول کی اطاعت ضروری ہے، اس واضح حکم کے بعد آپ بتائیں کہ کسی امام، مجدد، ظلی یا بروزی، نبی کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے؟
    ج… محترم و مکرم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!
    مجھے جناب کے گرامی نامہ سے خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنی تمام الجھنیں بے کم و کاست پوری بے تکلفی سے بیان کردیں، تفصیل سے لکھنے کی افسوس ہے کہ فرصت نہیں، اگر جناب سے ملاقات ہوجاتی تو زبانی معروضات پیش کرنا زیادہ آسان ہوتا، بہرحال چند امور عرض کرتا ہوں:
    ۱:…دینِ اسلام کے بہت سے امور تو ایسے ہیں جن میں نہ کسی کا اختلاف ہے نہ اختلاف کی گنجائش ہے۔ لیکن بہت سے امور ایسے ہیں کہ ان کا حکم صاف قرآن کریم یا حدیث نبوی میں مذکور نہیں، ایسے امور کا شرعی حکم دریافت کرنے کے لئے گہرے علم، وسیع نظر اور اعلیٰ درجہ کی دیانت و امانت درکار ہے۔ یہ چاروں بزرگ ان اوصاف میں پوری امت کے نزدیک معروف و مسلّم تھے، اس لئے ان کے فیصلوں کو بحیثیت شارحِ قانون کے تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس طرح کہ عدالتِ عالیہ کی تشریح قانون مستند ہوتی ہے، اس لئے یہ تصور صحیح نہیں کہ لوگ اللہ و رسول کی اطاعت کے بجائے ان بزرگوں کی اطاعت کرتے ہیں، صحیح تعبیر یہ ہے کہ اللہ و رسول کے فرمودات کی جو تشریح ان بزرگوں نے فرمائی اس کو مستند سمجھتے ہیں، قانون کی تشریح کو کوئی عاقل قانون سے انحراف نہیں سمجھا کرتا، اس لئے چاروں فقہ قرآن و سنت ہی سے مأخوذ ہیں، اور ان کی پیروی قرآن و سنت کی پیروی ہے۔
    ۲:…رہا یہ کہ جب چاروں تشریحات مستند ہیں تو صرف فقہ حنفی ہی کو کیوں اختیار کیا جاتا ہے؟ سو اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری فقہوں کی پوری تفصیلات ہمارے سامنے نہیں، نہ ساری کتابیں موجود ہیں، اس لئے دوسری فقہ کے ماہرین سے رجوع کا مشورہ تو دیا جاسکتا ہے مگر خود ایسی جرأت خلافِ احتیاط ہے۔
    دوم:… یہ کہ یہاں اکثر لوگ فقہ حنفی سے وابستہ ہیں، پس اگر کوئی شخص دوسری فقہ سے رجوع کرے گا تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ سہولت پسندی کی خاطر ایسا کرے گا، نہ کہ خدا اور رسول کی اطاعت کے لئے۔
    ایک دوسرے کے مسلک پر عمل کرنا
    س … اگر کوئی شخص اپنے مسلک کے علاوہ کسی مسلک کی پیروی ایک یا ایک سے زائد مسائل میں کرے تو کیا اس کی اجازت ہے؟ یعنی اگر کوئی شافعی، امام ابوحنیفہ کے مسئلہ پر عمل کرے تو کیا اس کی اجازت ہے؟
    ج… اپنے امام کے مسلک کو چھوڑ کر دوسرے مسلک پر عمل کرنا دو شرطوں کے ساتھ صحیح ہے: ایک یہ ہے کہ اس کا منشا ہوائے نفس نہ ہو بلکہ دوسرا مسلک دلیل سے اقویٰ (زیادہ قوی) اور احوط (زیادہ احتیاط والا) نظر آئے۔ دوم یہ کہ دو مسلکوں کو گڈمڈ نہ کرے، جس کو فقہاء کی اصطلاح میں “تلفیق” کہا جاتا ہے، بلکہ جس مسلک پر عمل کرے اس مسلک کی تمام شرائط کو ملحوظ رکھے۔


Working...
X