زمانہ کے فتنوں سے کس طرح بچیں؟
مولانا عبد القوی صاحب (ناظم ادارہ اشرف العلوم ، حیدرآباد)
آج کل دنیا کا حال عجیب وغریب ہے ،طرح طرح کے فتنے اور قسم قسم کی آزمائشوں سے پوری دنیا خصوصاً ملتِ اسلامیہ دوچارہے،کہیں امن وامان خطرے میں ہے تو کہیں جسم وجان داؤ پر ، عزت وناموس الگ لُٹ رہی ہے ،دین وایمان پر علاحدہ حملے ہورہے ہیں ، سمجھ میں نہیں آتاکہ آخر عالم میں یہ ہوکیا رہا ہے؟ اور اس بے ہنگم طوفان وبلاخیز سیلاب سے جس نے انسانوں کے جان ومال گھر بار ہی نہیں بلکہ دین وایمان اور عزت ووقار کو تک مجروح کردیا ہے دنیا کوکبھی نجات ملے گی یا نہیں ؟ انسانیت وشرافت کی کھوئی ہوئی عظمت اور گذری ہوئی شوکت کسی وقت لوٹ کر آئے گی بھی یا نہیں ؟ یہ وہ سوال ہیں جس نے آج اپنوں ،پرایوں ، پڑھے لکھوں ،اَن پڑھوں ،سب ہی کوحیرت میں ڈالدیا ہے اور کسی مدبر وزعیم کے پاس اس وقت اسکا کوئی جواب اور نجات کاراستہ یا تو موجود ہی نہیں یا اگر کچھ ہے تو تجربہ اورگذرتاہوا وقت اس کے صحیح وکار آمد ہونے کی واضح تردید کرتے جارہے ہیں ، اس لئے کہ ہم جوتدبیریں اور شکلیں ان فتنوں سے نجات اور بچاؤ کی سوچتے اور اختیار کرتے ہیں جب انہیں برت کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مفید نہیں بلکہ نہایت مُضر تھیں ۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں ہم
ع ...مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی....
کے مصداق نظر آرہے ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ تمام دنیا کے انسان خصوصاًمسلمان اپنے حالات کا جائزہ لیں ، اور مسائل کا حل کسی زعیم ولیڈر کی کاوش وفکرمیں نہیں بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں تلاش کریں جس کی صداقت وسچائی اور جس کے بتلائے ہوئے فارمولوں اور نسخو ں کی واقعیت اور یقینی صحت کو دیڑھ ہزار برس کی تاریخ میں کوئی انصاف پسند جھٹلا نہیں سکا،چنانچہ اس وقت میرے سامنے ایک حدیث شریف ہے جس کو بردران ِ اسلام کی توجہ کے لئے پیش کرناچاہتا ہوں ۔
ترمذی اور دارمی نے امیر المؤمنین سیدنا علی ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آ پؐ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا : بہت جلد طرح طرح کے فتنے سر اٹھانیوالے ہیں ، اس پر حضرت علی ؓ نے(اللہ انہیں جزائے خیرعطا فرمائے )عرض کیا :ان فتنوں سے نکلنے کی تدبیر بھی ارشاد فرما دی جائے کہ کیا ہوگی ؟ا سلئے کہ جب زبان ِ نبوت نے اس کی خبر دی توپہاڑوں کاٹل جانا ممکن ہے مگر ان فتنوں کا واقع نہونا ممکن نہیں ،لہذا فتنوں کی اقسام وکیفیات اور ان کی تفاصیل معلوم کرنے کے بجائے ان سے نکلنے اور بچنے کی تدابیر جاننا ہی اہم وضروری تھا، اور یہی حضرت علی ؓ کی عقل وعلم فقہ وفہم کا تقاضہ بھی تھا،اس لئے انہوں نے فتنوں کی تفصیل پوچھنے کے بجائے ان سے حفاظت کی صورت معلوم کی،اس کے جواب میں وحی الٰہی کے ذریعہ کھلنے والی زبان ِمبارک نے ارشاد فرمایا: ہر فتنہ اور ہر مصیبت سے بچنے کا واحد راستہ ‘‘اللہ کی کتاب ہے’’، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ،اس کے بعد آپ نے مزید تاکید کے لئے ’’کتاب اللہ ‘‘ یعنی قرآن مجید کی متعدد خصوصیتیں کا ذکر فرمایا ۔
(۱) اس میں تم سے پہلے والوں کے واقعات ہیں ۔ (جن سے تم اپنے لئے عبرت پکڑسکو )اور بعد والوں کے حالات ہیں (جن سے تم حصول نفع اور دفعِ ضرر کی پیشگی تیاری کر سکو )
(۲) (اور ہرزمانہ کے ) موجودہ حالات کے لئے احکامات ہیں ۔(جن کاتم لائحہ عمل بنا کر صحیح نہج پر گامزن ہو سکو )
(۳) وہی فیصلہ کن طاقت ہے ۔(دیگر اقوام کی کتابوں کی طرح قصے ، کہانیوں ، ناولوں اور افسانوں کی لہو کتاب نہیں بلکہ ایک ایسا جامع ضابطہ ٔ حیات ہے ،جو قوموں کی سربلندی وسرنگوئی کے درمیان اور حق وباطل کے مابین واضح فیصلہ کر دیتا ہے )
(۴) جوکوئی اسے نظر انداز کردے تو اللہ اسے تباہ کر دے گا ۔(ظاہر ہے کہ جب اس میں نجات منحصر ہے تو کامیابی اسے چھوڑ کر کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ اس لئے تار ک ِ قرآن کی تباہی یقینی ہے )
(۵) جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت کا متلاشی ہو تو اللہ اُسے گمراہ کر دے گا ۔ (یعنی جب دوسرا کو ئی راستہ ہے ہی نہیں تودوسرا راستہ ڈھونڈنے والے کو سوائے گمراہی کے اور کیا مل سکتا ہے )
(۶) وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے ۔(کہ اس کے پکڑنے والے ہی فتنوں سے بچ سکیں گے اور بقیہ تمام سہارے تارِ عنکبوت کی طرح کمزور ہیں کہ ان پر اعتماد کرنے والے نامراد ہی ہوں گے)
(۷) حکیم ودانا کا تذکرہ ہے۔ (اس لئے اس میں تغیر اور تبدل کی گنجائش نہیں اور قیامت تک بس یہی تذکرہ نجات دہندہ ہے اور اس کی حکمت ودانائی نے ہر زمانہ اورہر علاقہ کی ضرورت کے موافق امت کو درکارہدایتیں اس میں رکھی ہیں )
(۸) وہی صراط ِمستقیم کاضامن ہے ۔(اسی وجہ سے دوسرے تمام نظریات وخیالات بالیقین صراط ِ مستقیم سے ہٹا نے والے ہوں گے)
(۹) اور وہی حق کی(ایسی کسوٹی ہے ) جس کی وجہ سے اہل ہوا وہوس اپنی گمراہیوں کو پھیلا نہیں سکتے۔(کیونکہ علماء دین ہر نئی دعوتِ فکر کو کتاب اللہ کی کسوٹی پر کس کے دیکھ لیتے ہیں ، اگر وہ اس کے موافق ہے تو قبول ورنہ رد کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ اسی کسوٹی کی برکت سے آج تک باطل کو حق میں گھسنے اور اس کو بدلنے کا موقع نہ مل سکا ۔)
(۱۰) اور اس کی برکت سے زبانیں گڈ مڈ نہیں ہوسکتیں ۔(یعنی حق وباطل میں اشتباہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتیں)
(۱۱) علماء اس کے علوم ومعانی ،تحقیق وتدقیق وغیرہ سے نہ کبھی بیزار ہوں گے اور نہ سیرہوں گے۔(چنانچہ دنیا اس حقیقت کو اچھی طرح جانتی ہے کہ قرآن کریم کے علوم ومعارف کا سلسلہ علماء اسلام کی زبان وقلم سے تا ہنوز جاری ہے اور قرآن کریم کے اندر تفکر وتدبرمیں اپنی پوری زندگی لگادینے والا عالم بھی پیاسا کا پیاسا ہی دنیا سے چلا جاتا ہے)
(۱۲) اور نہ ہی اس کی چاشنی بکثرت پڑھنے سے پُرانی ہوگی(بلکہ ہرمرتبہ نئی لذت پائیں گے اور نئے علوم حاصل کریں گے )
(۱۳) اور نہ ہی اس کی ہدایت آمیز ،وفیصلہ کن عجائبات کبھی ختم ہوسکیں گی۔
(۱۴) جس نے اس کے حوالہ سے گفتگو کی تو بالکل صحیح کی، جس نے ا س کے تقاضو ں پر عمل کیا توبالیقین مستوجب اجرہوا اور جس نے اس کی جانب اوروں کو دعوت دی تو خود بھی صراط ِ مستقیم پاگیا ۔
مجھے پوری حدیث کی توضیح وتشریح نہیں کرنی ہے،اہل ِ علم جانتے ہیں کہ اس مبارک حدیث کے لفظ لفظ نے بے شمار علوم کے دروازے کھولدئیے ہیں ۔اور اس اجمال نے تفصیل کے دریا بہادئیے ہیں ۔
مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ محسن ِانسانیت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فتنوں اورپریشانیوں ، مصائب وآلام (ارضیہ وسماویہ)میں امت کونجات کی سبیل اور بچاؤ کی تدبیر کیا دی ہے؟
اس سوال کا معقول اور قابل ِقبول جواب حدیث مذکور کا ایک ایک جملہ دے رہا ہے ، دیکھئے ! صاف فرمایا جارہاہے ، اپنی عقلوں اورتجربوں سے ان کا فیصلہ نہ کرو ، بلکہ کتاب اللہ کواپنا قائد ورہبرتسلیم کرتے ہوئے اس کے فیصلے کے آگے سرِ اطاعت خم کردو، جیسا کہ امام سیوطی ؒنے‘‘الاتقان’’ میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص قرآن مجید کواپنے آگے رکھے گا (یعنی زندگی میں اس کی قیادت وہدایت اختیارکرے گا) قرآن مجید اس کوجنت میں پہنچا دے گااو ر جوشخص اسے اپنے پیٹھ پیچھے ڈال دے گا (یعنی اس کی اطاعت سے پہلوتہی کرے گا اور اس کے احکام کو پس پشت ڈالدے گا )توقرآن اس کوجہنم میں لے جاکے ڈھکیل دے گا ۔
بقول اقبال ؔمرحوم
وہ زمانہ میں معزز تھے تابعِ فرماں ہوکر تم خوار ہوئے ہو تارکِ قرآن ہوکر
البتہ یہ بات یا د رہے کہ قرآن کریم اپنے اعجاز وایجاز کی وجہ سے عام کتابوں کی طرح نہیں ہے ، وہ اللہ کا کلام ہے ، عام بندوں کی عقل وفہم اللہ تعالیٰ کے کلام کو براہ ِ راست سمجھنے سے قاصر ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنا کلام اپنے پیغمبروں پر نازل کیا ہے ، اور ان کو اس کلام کا مبین اور مفسر قرار دیا ہے،چنانچہ قرآن کریم کے بارے میں بھی نبی کریم ا کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو سمجھادیں کہ اس کتاب میں کیا نازل کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے بعد اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آپ ؐ نے اس کی تبیین وتشریح کا فریضہ انجام دیا ہے ،یہ آپ کے تمام ارشادات ِگرامی ....جنہیں حدیثِ رسول کہا جاتا ہے.... اسی قرآن کریم کی توضیح وتفسیر ہیں، اس لئے کلام اللہ سے صحیح معنوں میں استفادہ احادیثِ مبارکہ سے مستغنی ہو کر ہرگز نہیں کیا جاسکتا ۔ جو لوگ اس کے خلا ف کہتے ہیں وہ کسی اور کے نہیں خود قرآن کریم کے خلاف کہتے ہیں ۔ پھر قرآن کریم کی تعلیمات کا ایک حصہ وہ ہے جو تذکیر وموعظت پر مشتمل ہے ۔جسمیں حق تعالیٰ کی قدرت کے بے شمار مشاہدوں اور حسی مثالوں کے ذریعہ اس کی توحید کی طرف دعوت دی جاتی ہے ،امم سابقہ کے واقعات کے ذریعہ تصدیق وتکذیب کے عواقب سامنے لائے جاتیہیں ،نیز کبھی حکیمانہ اور کبھی حاکمانہ انداز سے مخالفین توحید کو چیالنج کیا جاتا ہے،اسی طرح رسالت اور عقیدہ ٔ آخرت کی صداقت کو ثابت کیا جاتاہے وغیرہ ۔ دوسرا حصہ وہ ہے جو عقائد واحکام سے متعلق ہے ، اس میں اکثر باتیں ایسی ہیں جو ہر شخص بآسانی سمجھ نہیں سکتا ، اس کی بڑی تفصیل ہوتی ہے ، اور ان آیات سے مراد الٰہی کو پانے کے لئے بہت سے علوم میں مہارت ضروری ہوتی ہے ۔ اس لئے عوام الناس کے لئے عافیت وسلامتی کاراستہ یہی ہے کہ وہ قرآن کریم کو علماء دین کی زبانی یا ان کی لکھی ہوئی تفاسیر کے ذریعہ سمجھیں ،براہِ راست کچھ عربی سے واقفیت کی بناء پر یا محض ترجموں کے مطالعہ کے ذریعہ قرآن فہمی کی ناکام کوشش کرکے رہے سہے دین کو بھی برباد نہ کرلیں ، جیسا کہ اس زمانہ میں ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ایک خطرناک خوش فہمی ہے جس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی کتاب تختہ مشق اورہوس پرستوں کا کھلونا بنتی جارہی ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ کتاب اللہ ہی تمام فتنوں سے بچنے کا واحد راستہ ہے بشرطیکہ کتاب اللہ کو احادیثِ نبوی اور علومِ سلف کی روشنی میں علماء امت کے ذریعہ سمجھا جائے ،ورنہ ہدایت کے بجائے گمراہی کے راستہ پر چل پڑیں گے ۔کماقال اللہ تعالیٰ: یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْراً وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْراً وَمَا یُضِلُّ بِہٖ اِلَّا الْفَاسِقِیْنَ
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو قرآن مجید کی کماحقہ قدر دانی اور اس کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق نصیب فرمائے
مولانا عبد القوی صاحب (ناظم ادارہ اشرف العلوم ، حیدرآباد)
آج کل دنیا کا حال عجیب وغریب ہے ،طرح طرح کے فتنے اور قسم قسم کی آزمائشوں سے پوری دنیا خصوصاً ملتِ اسلامیہ دوچارہے،کہیں امن وامان خطرے میں ہے تو کہیں جسم وجان داؤ پر ، عزت وناموس الگ لُٹ رہی ہے ،دین وایمان پر علاحدہ حملے ہورہے ہیں ، سمجھ میں نہیں آتاکہ آخر عالم میں یہ ہوکیا رہا ہے؟ اور اس بے ہنگم طوفان وبلاخیز سیلاب سے جس نے انسانوں کے جان ومال گھر بار ہی نہیں بلکہ دین وایمان اور عزت ووقار کو تک مجروح کردیا ہے دنیا کوکبھی نجات ملے گی یا نہیں ؟ انسانیت وشرافت کی کھوئی ہوئی عظمت اور گذری ہوئی شوکت کسی وقت لوٹ کر آئے گی بھی یا نہیں ؟ یہ وہ سوال ہیں جس نے آج اپنوں ،پرایوں ، پڑھے لکھوں ،اَن پڑھوں ،سب ہی کوحیرت میں ڈالدیا ہے اور کسی مدبر وزعیم کے پاس اس وقت اسکا کوئی جواب اور نجات کاراستہ یا تو موجود ہی نہیں یا اگر کچھ ہے تو تجربہ اورگذرتاہوا وقت اس کے صحیح وکار آمد ہونے کی واضح تردید کرتے جارہے ہیں ، اس لئے کہ ہم جوتدبیریں اور شکلیں ان فتنوں سے نجات اور بچاؤ کی سوچتے اور اختیار کرتے ہیں جب انہیں برت کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مفید نہیں بلکہ نہایت مُضر تھیں ۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں ہم
ع ...مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی....
کے مصداق نظر آرہے ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ تمام دنیا کے انسان خصوصاًمسلمان اپنے حالات کا جائزہ لیں ، اور مسائل کا حل کسی زعیم ولیڈر کی کاوش وفکرمیں نہیں بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں تلاش کریں جس کی صداقت وسچائی اور جس کے بتلائے ہوئے فارمولوں اور نسخو ں کی واقعیت اور یقینی صحت کو دیڑھ ہزار برس کی تاریخ میں کوئی انصاف پسند جھٹلا نہیں سکا،چنانچہ اس وقت میرے سامنے ایک حدیث شریف ہے جس کو بردران ِ اسلام کی توجہ کے لئے پیش کرناچاہتا ہوں ۔
ترمذی اور دارمی نے امیر المؤمنین سیدنا علی ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آ پؐ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا : بہت جلد طرح طرح کے فتنے سر اٹھانیوالے ہیں ، اس پر حضرت علی ؓ نے(اللہ انہیں جزائے خیرعطا فرمائے )عرض کیا :ان فتنوں سے نکلنے کی تدبیر بھی ارشاد فرما دی جائے کہ کیا ہوگی ؟ا سلئے کہ جب زبان ِ نبوت نے اس کی خبر دی توپہاڑوں کاٹل جانا ممکن ہے مگر ان فتنوں کا واقع نہونا ممکن نہیں ،لہذا فتنوں کی اقسام وکیفیات اور ان کی تفاصیل معلوم کرنے کے بجائے ان سے نکلنے اور بچنے کی تدابیر جاننا ہی اہم وضروری تھا، اور یہی حضرت علی ؓ کی عقل وعلم فقہ وفہم کا تقاضہ بھی تھا،اس لئے انہوں نے فتنوں کی تفصیل پوچھنے کے بجائے ان سے حفاظت کی صورت معلوم کی،اس کے جواب میں وحی الٰہی کے ذریعہ کھلنے والی زبان ِمبارک نے ارشاد فرمایا: ہر فتنہ اور ہر مصیبت سے بچنے کا واحد راستہ ‘‘اللہ کی کتاب ہے’’، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ،اس کے بعد آپ نے مزید تاکید کے لئے ’’کتاب اللہ ‘‘ یعنی قرآن مجید کی متعدد خصوصیتیں کا ذکر فرمایا ۔
(۱) اس میں تم سے پہلے والوں کے واقعات ہیں ۔ (جن سے تم اپنے لئے عبرت پکڑسکو )اور بعد والوں کے حالات ہیں (جن سے تم حصول نفع اور دفعِ ضرر کی پیشگی تیاری کر سکو )
(۲) (اور ہرزمانہ کے ) موجودہ حالات کے لئے احکامات ہیں ۔(جن کاتم لائحہ عمل بنا کر صحیح نہج پر گامزن ہو سکو )
(۳) وہی فیصلہ کن طاقت ہے ۔(دیگر اقوام کی کتابوں کی طرح قصے ، کہانیوں ، ناولوں اور افسانوں کی لہو کتاب نہیں بلکہ ایک ایسا جامع ضابطہ ٔ حیات ہے ،جو قوموں کی سربلندی وسرنگوئی کے درمیان اور حق وباطل کے مابین واضح فیصلہ کر دیتا ہے )
(۴) جوکوئی اسے نظر انداز کردے تو اللہ اسے تباہ کر دے گا ۔(ظاہر ہے کہ جب اس میں نجات منحصر ہے تو کامیابی اسے چھوڑ کر کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ اس لئے تار ک ِ قرآن کی تباہی یقینی ہے )
(۵) جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت کا متلاشی ہو تو اللہ اُسے گمراہ کر دے گا ۔ (یعنی جب دوسرا کو ئی راستہ ہے ہی نہیں تودوسرا راستہ ڈھونڈنے والے کو سوائے گمراہی کے اور کیا مل سکتا ہے )
(۶) وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے ۔(کہ اس کے پکڑنے والے ہی فتنوں سے بچ سکیں گے اور بقیہ تمام سہارے تارِ عنکبوت کی طرح کمزور ہیں کہ ان پر اعتماد کرنے والے نامراد ہی ہوں گے)
(۷) حکیم ودانا کا تذکرہ ہے۔ (اس لئے اس میں تغیر اور تبدل کی گنجائش نہیں اور قیامت تک بس یہی تذکرہ نجات دہندہ ہے اور اس کی حکمت ودانائی نے ہر زمانہ اورہر علاقہ کی ضرورت کے موافق امت کو درکارہدایتیں اس میں رکھی ہیں )
(۸) وہی صراط ِمستقیم کاضامن ہے ۔(اسی وجہ سے دوسرے تمام نظریات وخیالات بالیقین صراط ِ مستقیم سے ہٹا نے والے ہوں گے)
(۹) اور وہی حق کی(ایسی کسوٹی ہے ) جس کی وجہ سے اہل ہوا وہوس اپنی گمراہیوں کو پھیلا نہیں سکتے۔(کیونکہ علماء دین ہر نئی دعوتِ فکر کو کتاب اللہ کی کسوٹی پر کس کے دیکھ لیتے ہیں ، اگر وہ اس کے موافق ہے تو قبول ورنہ رد کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ اسی کسوٹی کی برکت سے آج تک باطل کو حق میں گھسنے اور اس کو بدلنے کا موقع نہ مل سکا ۔)
(۱۰) اور اس کی برکت سے زبانیں گڈ مڈ نہیں ہوسکتیں ۔(یعنی حق وباطل میں اشتباہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتیں)
(۱۱) علماء اس کے علوم ومعانی ،تحقیق وتدقیق وغیرہ سے نہ کبھی بیزار ہوں گے اور نہ سیرہوں گے۔(چنانچہ دنیا اس حقیقت کو اچھی طرح جانتی ہے کہ قرآن کریم کے علوم ومعارف کا سلسلہ علماء اسلام کی زبان وقلم سے تا ہنوز جاری ہے اور قرآن کریم کے اندر تفکر وتدبرمیں اپنی پوری زندگی لگادینے والا عالم بھی پیاسا کا پیاسا ہی دنیا سے چلا جاتا ہے)
(۱۲) اور نہ ہی اس کی چاشنی بکثرت پڑھنے سے پُرانی ہوگی(بلکہ ہرمرتبہ نئی لذت پائیں گے اور نئے علوم حاصل کریں گے )
(۱۳) اور نہ ہی اس کی ہدایت آمیز ،وفیصلہ کن عجائبات کبھی ختم ہوسکیں گی۔
(۱۴) جس نے اس کے حوالہ سے گفتگو کی تو بالکل صحیح کی، جس نے ا س کے تقاضو ں پر عمل کیا توبالیقین مستوجب اجرہوا اور جس نے اس کی جانب اوروں کو دعوت دی تو خود بھی صراط ِ مستقیم پاگیا ۔
مجھے پوری حدیث کی توضیح وتشریح نہیں کرنی ہے،اہل ِ علم جانتے ہیں کہ اس مبارک حدیث کے لفظ لفظ نے بے شمار علوم کے دروازے کھولدئیے ہیں ۔اور اس اجمال نے تفصیل کے دریا بہادئیے ہیں ۔
مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ محسن ِانسانیت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فتنوں اورپریشانیوں ، مصائب وآلام (ارضیہ وسماویہ)میں امت کونجات کی سبیل اور بچاؤ کی تدبیر کیا دی ہے؟
اس سوال کا معقول اور قابل ِقبول جواب حدیث مذکور کا ایک ایک جملہ دے رہا ہے ، دیکھئے ! صاف فرمایا جارہاہے ، اپنی عقلوں اورتجربوں سے ان کا فیصلہ نہ کرو ، بلکہ کتاب اللہ کواپنا قائد ورہبرتسلیم کرتے ہوئے اس کے فیصلے کے آگے سرِ اطاعت خم کردو، جیسا کہ امام سیوطی ؒنے‘‘الاتقان’’ میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص قرآن مجید کواپنے آگے رکھے گا (یعنی زندگی میں اس کی قیادت وہدایت اختیارکرے گا) قرآن مجید اس کوجنت میں پہنچا دے گااو ر جوشخص اسے اپنے پیٹھ پیچھے ڈال دے گا (یعنی اس کی اطاعت سے پہلوتہی کرے گا اور اس کے احکام کو پس پشت ڈالدے گا )توقرآن اس کوجہنم میں لے جاکے ڈھکیل دے گا ۔
بقول اقبال ؔمرحوم
وہ زمانہ میں معزز تھے تابعِ فرماں ہوکر تم خوار ہوئے ہو تارکِ قرآن ہوکر
البتہ یہ بات یا د رہے کہ قرآن کریم اپنے اعجاز وایجاز کی وجہ سے عام کتابوں کی طرح نہیں ہے ، وہ اللہ کا کلام ہے ، عام بندوں کی عقل وفہم اللہ تعالیٰ کے کلام کو براہ ِ راست سمجھنے سے قاصر ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنا کلام اپنے پیغمبروں پر نازل کیا ہے ، اور ان کو اس کلام کا مبین اور مفسر قرار دیا ہے،چنانچہ قرآن کریم کے بارے میں بھی نبی کریم ا کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو سمجھادیں کہ اس کتاب میں کیا نازل کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے بعد اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آپ ؐ نے اس کی تبیین وتشریح کا فریضہ انجام دیا ہے ،یہ آپ کے تمام ارشادات ِگرامی ....جنہیں حدیثِ رسول کہا جاتا ہے.... اسی قرآن کریم کی توضیح وتفسیر ہیں، اس لئے کلام اللہ سے صحیح معنوں میں استفادہ احادیثِ مبارکہ سے مستغنی ہو کر ہرگز نہیں کیا جاسکتا ۔ جو لوگ اس کے خلا ف کہتے ہیں وہ کسی اور کے نہیں خود قرآن کریم کے خلاف کہتے ہیں ۔ پھر قرآن کریم کی تعلیمات کا ایک حصہ وہ ہے جو تذکیر وموعظت پر مشتمل ہے ۔جسمیں حق تعالیٰ کی قدرت کے بے شمار مشاہدوں اور حسی مثالوں کے ذریعہ اس کی توحید کی طرف دعوت دی جاتی ہے ،امم سابقہ کے واقعات کے ذریعہ تصدیق وتکذیب کے عواقب سامنے لائے جاتیہیں ،نیز کبھی حکیمانہ اور کبھی حاکمانہ انداز سے مخالفین توحید کو چیالنج کیا جاتا ہے،اسی طرح رسالت اور عقیدہ ٔ آخرت کی صداقت کو ثابت کیا جاتاہے وغیرہ ۔ دوسرا حصہ وہ ہے جو عقائد واحکام سے متعلق ہے ، اس میں اکثر باتیں ایسی ہیں جو ہر شخص بآسانی سمجھ نہیں سکتا ، اس کی بڑی تفصیل ہوتی ہے ، اور ان آیات سے مراد الٰہی کو پانے کے لئے بہت سے علوم میں مہارت ضروری ہوتی ہے ۔ اس لئے عوام الناس کے لئے عافیت وسلامتی کاراستہ یہی ہے کہ وہ قرآن کریم کو علماء دین کی زبانی یا ان کی لکھی ہوئی تفاسیر کے ذریعہ سمجھیں ،براہِ راست کچھ عربی سے واقفیت کی بناء پر یا محض ترجموں کے مطالعہ کے ذریعہ قرآن فہمی کی ناکام کوشش کرکے رہے سہے دین کو بھی برباد نہ کرلیں ، جیسا کہ اس زمانہ میں ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ایک خطرناک خوش فہمی ہے جس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی کتاب تختہ مشق اورہوس پرستوں کا کھلونا بنتی جارہی ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ کتاب اللہ ہی تمام فتنوں سے بچنے کا واحد راستہ ہے بشرطیکہ کتاب اللہ کو احادیثِ نبوی اور علومِ سلف کی روشنی میں علماء امت کے ذریعہ سمجھا جائے ،ورنہ ہدایت کے بجائے گمراہی کے راستہ پر چل پڑیں گے ۔کماقال اللہ تعالیٰ: یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْراً وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْراً وَمَا یُضِلُّ بِہٖ اِلَّا الْفَاسِقِیْنَ
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو قرآن مجید کی کماحقہ قدر دانی اور اس کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق نصیب فرمائے