سنت ِنبویہﷺ کی حجیت و اہمیت
سنت و حدیث کی بدولت قرآ ن کریم کی نبویﷺتفسیروتعبیر کا کامل نمونہ ہر دور میں موجود رہاہے۔عہد ِنبویﷺ کے اثر سے عہد ِصحابہؓ کا ’مزاج و مذاق‘ ایک نسل سے دوسری نسل اورایک طبقہ سے دوسرے طبقہ میں منتقل ہوتا رہا اورہر دور میں ایسے افراد موجود رہے جو ’سلف ‘ کے مزاج اور ذوق کے حامل کہے جا سکتے ہیں۔قرآن حکیم میں تقریباً چالیس مقامات پر ’اتباع رسول اﷲﷺ‘ کا حکم مختلف انداز میں وارد ہوا ہے۔ کتاب اللہ میں ’سیرت طیبہ‘ بڑے حکیمانہ انداز میں بیان ہوئی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نگاہ میں اتباع رسولﷺ کا عقیدہ ایمان کے لئے ایک اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ شریعت صرف قرآن کا نا م نہیں بلکہ پیغمبر اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پیغمبر اور رسولﷺ کو درمیا ن سے ہٹا دیا جائے تو ’قرآن اور شریعت‘ بے یا ر و مدگار ہو جاتے ہیں۔
نواب صدیق حسن خانؒ رقم طراز ہیں
’’ قرآن مجید کی تفسیر صرف اپنی رائے سے کرنا حرام ہے۔حدیث ابن عباسؓ میں مرفوعاً آیا ہے کہ جس نے اپنی رائے یا عقل یا قیاس سے وہ بات کہی جو وہ نہیں جانتا اور قرآن مجید کی تفسیر کی تو وہ شخص دوزخ میں اپنی جگہ بنا لے۔ دوسری روایت میں یوں آیا ہے کہ جس نے قرآن مجید کی تفسیر اپنی رائے سے کی اور ٹھیک بھی کی تو وہ شخص چوک گیا اور اس نے خطاکی۔معلوم ہواکہ جب کوئی شخص قرآن کی تفسیر کرے توحتیٰ الامکان اوّلاً قرآن سے کرے سنت مطہرہ سے کرے،پھر اقوال صحابہؓ،پھر اجماع تا بعین،پھر لغت عرب سے کرے،گویا یہ پانچ مرتبے ہوئے۔کیونکہ اپنی رائے سے تفسیر کرنے والوں کے لئے(فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ) جہنم کی وعید آئی ہے۔اور نیچریہ کے لئے بھی یہ بہت بڑی وعید ہے جنہوں نے سارے قرآن کی تفسیر اپنی رائے یا تدبیر سے گھڑی ہے۔جب سیدنا حضرت ابو بکر صدیق ؓ یہ کہیں کہ اگر میں بغیر جانے بوجھے کتاب اللہ میں کچھ کہوں گا تو معلوم نہیں کون سی زمین مجھے اُٹھائے گی اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہو گا تو پھر کسی اور شخص کو یہ کیا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے جی سے قرآن کے معانی بتائے۔‘‘
قرآنِ مجید کی نبویؐ تفسیر کے منکرین سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ پیش کرتے ہیں کہ قرآن کے بار ے اللہ نے فرمایا ہے : {تِبْیٰنًا لِّکُلِّ شَيْئٍ}یعنی قرآنِ مجید میں ہر مسئلہ کی تفسیر بیان کر دی گئی ہے لہٰذا حدیث کی ضرورت نہیں ہے، یہ لوگ اپنے کو اہلِ قرآن سے موسوم کرتے ہیں،جبکہ جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ حکم الٰہی کے مطابق یہ ہے کہ قرآنِ حکیم صرف اُصول و مبادی بیا ن فرماتا ہے اور اس کی تما م تر تشریحات کا علم رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں ملتا ہے۔ وہ اہل قرآن سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا وہ نمازوں کی تعداد،رکعات،اس کی ہیئت ِترکیبی وغیرہ قرآن مجید سے ثابت کر سکتے ہیں؟ظاہر ہے کہ وہ فقط قرآن سے یہ سب کچھ ثابت نہیں کر سکتے
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفٰے بر جان مسلم داشتن
مولوی عبداللہ چکڑالوی نے ایک رسالہ بعنوان: برھان الفرقان علیٰ صلوٰۃ القرآن لکھا۔ موصوف نے قرآنی آیات کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے’’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہ‘‘ کے مصداق نماز کی ہیئت ِترکیبی کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی،لکھتے ہیں
تکبیر اولیٰ :{ وَاَنَّ اﷲَ ھُوَالْعَلِيُّ الْکَبِیْرُ} تشہد کا سلام
{سَلَامٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ }
مولانا ابو الو فا ثناء اللہ امرتسریؒ نے اس کی گرفت کی اور فرمایا
’’ یہ آیات جو آپ نے ’موقع بہ موقع‘ کے لئے انتخاب کی ہیں، ان کا انتخاب آپ نے محض اپنی رائے اور اجتہاد سے کیا ہے یا قرآن مجید کی کسی آیت سے؟ اگر اپنی رائے سے کیا ہے تو کیا کسی دوسرے شخص کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ان کے علاوہ دوسری آیات تجویز کرے؟ اسی طرح تیسرے شخص کا اور چوتھے اورپانچویں شخص کا؟ علیٰ ہذا القیاس۔ دنیا بھر کے جہلا کو جانے دو، علما کا تو پھر حق ہے کہ اپنی اپنی سمجھ کے موافق آیات کا انتخاب کر کے علیحدہ علیحدہ نماز تجویز کر سکتے ہیں؟ تو پھر کیا آپ ان سب نمازوں کا نام’صلوٰۃ القرآن‘ ہی رکھیں گے؟ اور یہ بھی دعویٰ کریں گے کہ قرآنِ مجید نے سب احکام مفصل بیان کر دیے ہیں، ایسے کہ ان کے سمجھنے میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا اور حدیث کی کوئی حاجت نہیں؟ اور اگر یہ آپ کا انتخاب کسی آیت قرآنی سے ہے تو
وہ آیت کون سی ہے؟‘‘
اس بات کی تائید حضرت مقدام بن معدیکربؓ سے مروی یہ حدیث کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
(اَلاَ اِنِّيْ اُوْتِیْتُ الْقُرْاٰنَ وَ مِثْلَہٗ مَعَہ أَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبعَانَ عَلیٰ اَرِیْکَتِہ یَقُوْلُ عَلَیْکُمْ بِھٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحَلُّوْا فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ وَ اِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ کَمَا حَرَّمَ اﷲُ )
’’آگاہ رہو ! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور بالکل اس کے مثل ایک اور چیز۔ عنقریب ایک سیر شکم آدمی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے یوں کہے گاکہ قرآن کا دامن تھامے رکھو جو چیز اس میں حلال ہو، اس کو حلال سمجھنااو ر جو چیز اس میں حرام ہو اس کو حرام سمجھو ،لیکن جان رکھو کہ جس چیز کو رسول اﷲﷺ نے حرام ٹھہرایا ہو، وہ چیزبھی اللہ کی حرام کردہ چیزوں کی طرح حرام ہی ہے۔‘‘
سنت و حدیث کی بدولت قرآ ن کریم کی نبویﷺتفسیروتعبیر کا کامل نمونہ ہر دور میں موجود رہاہے۔عہد ِنبویﷺ کے اثر سے عہد ِصحابہؓ کا ’مزاج و مذاق‘ ایک نسل سے دوسری نسل اورایک طبقہ سے دوسرے طبقہ میں منتقل ہوتا رہا اورہر دور میں ایسے افراد موجود رہے جو ’سلف ‘ کے مزاج اور ذوق کے حامل کہے جا سکتے ہیں۔قرآن حکیم میں تقریباً چالیس مقامات پر ’اتباع رسول اﷲﷺ‘ کا حکم مختلف انداز میں وارد ہوا ہے۔ کتاب اللہ میں ’سیرت طیبہ‘ بڑے حکیمانہ انداز میں بیان ہوئی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نگاہ میں اتباع رسولﷺ کا عقیدہ ایمان کے لئے ایک اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ شریعت صرف قرآن کا نا م نہیں بلکہ پیغمبر اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پیغمبر اور رسولﷺ کو درمیا ن سے ہٹا دیا جائے تو ’قرآن اور شریعت‘ بے یا ر و مدگار ہو جاتے ہیں۔
نواب صدیق حسن خانؒ رقم طراز ہیں
’’ قرآن مجید کی تفسیر صرف اپنی رائے سے کرنا حرام ہے۔حدیث ابن عباسؓ میں مرفوعاً آیا ہے کہ جس نے اپنی رائے یا عقل یا قیاس سے وہ بات کہی جو وہ نہیں جانتا اور قرآن مجید کی تفسیر کی تو وہ شخص دوزخ میں اپنی جگہ بنا لے۔ دوسری روایت میں یوں آیا ہے کہ جس نے قرآن مجید کی تفسیر اپنی رائے سے کی اور ٹھیک بھی کی تو وہ شخص چوک گیا اور اس نے خطاکی۔معلوم ہواکہ جب کوئی شخص قرآن کی تفسیر کرے توحتیٰ الامکان اوّلاً قرآن سے کرے سنت مطہرہ سے کرے،پھر اقوال صحابہؓ،پھر اجماع تا بعین،پھر لغت عرب سے کرے،گویا یہ پانچ مرتبے ہوئے۔کیونکہ اپنی رائے سے تفسیر کرنے والوں کے لئے(فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ) جہنم کی وعید آئی ہے۔اور نیچریہ کے لئے بھی یہ بہت بڑی وعید ہے جنہوں نے سارے قرآن کی تفسیر اپنی رائے یا تدبیر سے گھڑی ہے۔جب سیدنا حضرت ابو بکر صدیق ؓ یہ کہیں کہ اگر میں بغیر جانے بوجھے کتاب اللہ میں کچھ کہوں گا تو معلوم نہیں کون سی زمین مجھے اُٹھائے گی اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہو گا تو پھر کسی اور شخص کو یہ کیا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے جی سے قرآن کے معانی بتائے۔‘‘
قرآنِ مجید کی نبویؐ تفسیر کے منکرین سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ پیش کرتے ہیں کہ قرآن کے بار ے اللہ نے فرمایا ہے : {تِبْیٰنًا لِّکُلِّ شَيْئٍ}یعنی قرآنِ مجید میں ہر مسئلہ کی تفسیر بیان کر دی گئی ہے لہٰذا حدیث کی ضرورت نہیں ہے، یہ لوگ اپنے کو اہلِ قرآن سے موسوم کرتے ہیں،جبکہ جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ حکم الٰہی کے مطابق یہ ہے کہ قرآنِ حکیم صرف اُصول و مبادی بیا ن فرماتا ہے اور اس کی تما م تر تشریحات کا علم رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں ملتا ہے۔ وہ اہل قرآن سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا وہ نمازوں کی تعداد،رکعات،اس کی ہیئت ِترکیبی وغیرہ قرآن مجید سے ثابت کر سکتے ہیں؟ظاہر ہے کہ وہ فقط قرآن سے یہ سب کچھ ثابت نہیں کر سکتے
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفٰے بر جان مسلم داشتن
مولوی عبداللہ چکڑالوی نے ایک رسالہ بعنوان: برھان الفرقان علیٰ صلوٰۃ القرآن لکھا۔ موصوف نے قرآنی آیات کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے’’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہ‘‘ کے مصداق نماز کی ہیئت ِترکیبی کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی،لکھتے ہیں
تکبیر اولیٰ :{ وَاَنَّ اﷲَ ھُوَالْعَلِيُّ الْکَبِیْرُ} تشہد کا سلام
{سَلَامٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ }
مولانا ابو الو فا ثناء اللہ امرتسریؒ نے اس کی گرفت کی اور فرمایا
’’ یہ آیات جو آپ نے ’موقع بہ موقع‘ کے لئے انتخاب کی ہیں، ان کا انتخاب آپ نے محض اپنی رائے اور اجتہاد سے کیا ہے یا قرآن مجید کی کسی آیت سے؟ اگر اپنی رائے سے کیا ہے تو کیا کسی دوسرے شخص کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ان کے علاوہ دوسری آیات تجویز کرے؟ اسی طرح تیسرے شخص کا اور چوتھے اورپانچویں شخص کا؟ علیٰ ہذا القیاس۔ دنیا بھر کے جہلا کو جانے دو، علما کا تو پھر حق ہے کہ اپنی اپنی سمجھ کے موافق آیات کا انتخاب کر کے علیحدہ علیحدہ نماز تجویز کر سکتے ہیں؟ تو پھر کیا آپ ان سب نمازوں کا نام’صلوٰۃ القرآن‘ ہی رکھیں گے؟ اور یہ بھی دعویٰ کریں گے کہ قرآنِ مجید نے سب احکام مفصل بیان کر دیے ہیں، ایسے کہ ان کے سمجھنے میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا اور حدیث کی کوئی حاجت نہیں؟ اور اگر یہ آپ کا انتخاب کسی آیت قرآنی سے ہے تو
وہ آیت کون سی ہے؟‘‘
اس بات کی تائید حضرت مقدام بن معدیکربؓ سے مروی یہ حدیث کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
(اَلاَ اِنِّيْ اُوْتِیْتُ الْقُرْاٰنَ وَ مِثْلَہٗ مَعَہ أَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبعَانَ عَلیٰ اَرِیْکَتِہ یَقُوْلُ عَلَیْکُمْ بِھٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحَلُّوْا فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ وَ اِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ کَمَا حَرَّمَ اﷲُ )
’’آگاہ رہو ! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور بالکل اس کے مثل ایک اور چیز۔ عنقریب ایک سیر شکم آدمی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے یوں کہے گاکہ قرآن کا دامن تھامے رکھو جو چیز اس میں حلال ہو، اس کو حلال سمجھنااو ر جو چیز اس میں حرام ہو اس کو حرام سمجھو ،لیکن جان رکھو کہ جس چیز کو رسول اﷲﷺ نے حرام ٹھہرایا ہو، وہ چیزبھی اللہ کی حرام کردہ چیزوں کی طرح حرام ہی ہے۔‘‘
Comment