Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سنت نبویہ ﷺ کی حجیت و اہمیت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سنت نبویہ ﷺ کی حجیت و اہمیت


    سنت ِنبویہﷺ کی حجیت و اہمیت

    سنت و حدیث کی بدولت قرآ ن کریم کی نبویﷺتفسیروتعبیر کا کامل نمونہ ہر دور میں موجود رہاہے۔عہد ِنبویﷺ کے اثر سے عہد ِصحابہؓ کا ’مزاج و مذاق‘ ایک نسل سے دوسری نسل اورایک طبقہ سے دوسرے طبقہ میں منتقل ہوتا رہا اورہر دور میں ایسے افراد موجود رہے جو ’سلف ‘ کے مزاج اور ذوق کے حامل کہے جا سکتے ہیں۔قرآن حکیم میں تقریباً چالیس مقامات پر ’اتباع رسول اﷲﷺ‘ کا حکم مختلف انداز میں وارد ہوا ہے۔ کتاب اللہ میں ’سیرت طیبہ‘ بڑے حکیمانہ انداز میں بیان ہوئی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نگاہ میں اتباع رسولﷺ کا عقیدہ ایمان کے لئے ایک اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ شریعت صرف قرآن کا نا م نہیں بلکہ پیغمبر اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پیغمبر اور رسولﷺ کو درمیا ن سے ہٹا دیا جائے تو ’قرآن اور شریعت‘ بے یا ر و مدگار ہو جاتے ہیں۔

    نواب صدیق حسن خانؒ رقم طراز ہیں

    ’’ قرآن مجید کی تفسیر صرف اپنی رائے سے کرنا حرام ہے۔حدیث ابن عباسؓ میں مرفوعاً آیا ہے کہ جس نے اپنی رائے یا عقل یا قیاس سے وہ بات کہی جو وہ نہیں جانتا اور قرآن مجید کی تفسیر کی تو وہ شخص دوزخ میں اپنی جگہ بنا لے۔ دوسری روایت میں یوں آیا ہے کہ جس نے قرآن مجید کی تفسیر اپنی رائے سے کی اور ٹھیک بھی کی تو وہ شخص چوک گیا اور اس نے خطاکی۔معلوم ہواکہ جب کوئی شخص قرآن کی تفسیر کرے توحتیٰ الامکان اوّلاً قرآن سے کرے سنت مطہرہ سے کرے،پھر اقوال صحابہؓ،پھر اجماع تا بعین،پھر لغت عرب سے کرے،گویا یہ پانچ مرتبے ہوئے۔کیونکہ اپنی رائے سے تفسیر کرنے والوں کے لئے(فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ) جہنم کی وعید آئی ہے۔اور نیچریہ کے لئے بھی یہ بہت بڑی وعید ہے جنہوں نے سارے قرآن کی تفسیر اپنی رائے یا تدبیر سے گھڑی ہے۔جب سیدنا حضرت ابو بکر صدیق ؓ یہ کہیں کہ اگر میں بغیر جانے بوجھے کتاب اللہ میں کچھ کہوں گا تو معلوم نہیں کون سی زمین مجھے اُٹھائے گی اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہو گا تو پھر کسی اور شخص کو یہ کیا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے جی سے قرآن کے معانی بتائے۔‘‘





    قرآنِ مجید کی نبویؐ تفسیر کے منکرین سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ پیش کرتے ہیں کہ قرآن کے بار ے اللہ نے فرمایا ہے : {تِبْیٰنًا لِّکُلِّ شَيْئٍ}یعنی قرآنِ مجید میں ہر مسئلہ کی تفسیر بیان کر دی گئی ہے لہٰذا حدیث کی ضرورت نہیں ہے، یہ لوگ اپنے کو اہلِ قرآن سے موسوم کرتے ہیں،جبکہ جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ حکم الٰہی کے مطابق یہ ہے کہ قرآنِ حکیم صرف اُصول و مبادی بیا ن فرماتا ہے اور اس کی تما م تر تشریحات کا علم رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں ملتا ہے۔ وہ اہل قرآن سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا وہ نمازوں کی تعداد،رکعات،اس کی ہیئت ِترکیبی وغیرہ قرآن مجید سے ثابت کر سکتے ہیں؟ظاہر ہے کہ وہ فقط قرآن سے یہ سب کچھ ثابت نہیں کر سکتے

    اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفٰے بر جان مسلم داشتن
    مولوی عبداللہ چکڑالوی نے ایک رسالہ بعنوان: برھان الفرقان علیٰ صلوٰۃ القرآن لکھا۔ موصوف نے قرآنی آیات کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے’’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہ‘‘ کے مصداق نماز کی ہیئت ِترکیبی کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی،لکھتے ہیں

    تکبیر اولیٰ :{ وَاَنَّ اﷲَ ھُوَالْعَلِيُّ الْکَبِیْرُ} تشہد کا سلام

    {سَلَامٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ }


    مولانا ابو الو فا ثناء اللہ امرتسریؒ نے اس کی گرفت کی اور فرمایا

    ’’ یہ آیات جو آپ نے ’موقع بہ موقع‘ کے لئے انتخاب کی ہیں، ان کا انتخاب آپ نے محض اپنی رائے اور اجتہاد سے کیا ہے یا قرآن مجید کی کسی آیت سے؟ اگر اپنی رائے سے کیا ہے تو کیا کسی دوسرے شخص کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ان کے علاوہ دوسری آیات تجویز کرے؟ اسی طرح تیسرے شخص کا اور چوتھے اورپانچویں شخص کا؟ علیٰ ہذا القیاس۔ دنیا بھر کے جہلا کو جانے دو، علما کا تو پھر حق ہے کہ اپنی اپنی سمجھ کے موافق آیات کا انتخاب کر کے علیحدہ علیحدہ نماز تجویز کر سکتے ہیں؟ تو پھر کیا آپ ان سب نمازوں کا نام’صلوٰۃ القرآن‘ ہی رکھیں گے؟ اور یہ بھی دعویٰ کریں گے کہ قرآنِ مجید نے سب احکام مفصل بیان کر دیے ہیں، ایسے کہ ان کے سمجھنے میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا اور حدیث کی کوئی حاجت نہیں؟ اور اگر یہ آپ کا انتخاب کسی آیت قرآنی سے ہے تو
    وہ آیت کون سی ہے؟‘‘

    اس بات کی تائید حضرت مقدام بن معدیکربؓ سے مروی یہ حدیث کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

    (اَلاَ اِنِّيْ اُوْتِیْتُ الْقُرْاٰنَ وَ مِثْلَہٗ مَعَہ أَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبعَانَ عَلیٰ اَرِیْکَتِہ یَقُوْلُ عَلَیْکُمْ بِھٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحَلُّوْا فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ وَ اِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ کَمَا حَرَّمَ اﷲُ )

    ’’آگاہ رہو ! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور بالکل اس کے مثل ایک اور چیز۔ عنقریب ایک سیر شکم آدمی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے یوں کہے گاکہ قرآن کا دامن تھامے رکھو جو چیز اس میں حلال ہو، اس کو حلال سمجھنااو ر جو چیز اس میں حرام ہو اس کو حرام سمجھو ،لیکن جان رکھو کہ جس چیز کو رسول اﷲﷺ نے حرام ٹھہرایا ہو، وہ چیزبھی اللہ کی حرام کردہ چیزوں کی طرح حرام ہی ہے۔‘‘



  • #2
    Re: سنت نبویہ ﷺ کی حجیت و اہمیت

    بعثت ِمحمدیﷺ کے چار بنیادی مقاصد

    رسول ﷺ کی بعثت و تعلیم کے مقاصد و نتائج قرآن مجید میں صراحتہ ًبیان کئے گئے ہیں

    1۔تلاوتِ آیات 2۔ تزکیہ نفس 3۔تعلیم ِکتاب اللہ 4۔تعلیم ِحکمت۔چنانچہ فرمایا

    { رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوا عَلَیْھِم اٰ یٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ }

    ’’اے پروردگار ! ان (لوگوں) میں انہی میں سے ایک پیغمبرمبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کرسنایا کرے اور کتاب و حکمت سکھایا کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک و صاف کیا کرے، بے شک تو غالب ہے او رصاحب ِحکمت ہے۔‘‘

    قرآنِ مجیدمیں رسول اﷲ ﷺ کی یہ چند صفات چار مقامات پر بیا ن کی گئی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان حضورؐ کی قدر پہچانیں اور اس نعمت سے پورا پورا فیض حاصل کریں جو نبیﷺ کی بعثت کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں عطا فرمائی ہے۔پھر وہ صرف آیات ہی نہیں سناتے بلکہ بر وقت اپنے قول و عمل اور زندگی کے نمونوں سے لوگوں کو کتابِ الٰہی کا منشا سمجھا رہے ہیں۔ان آیات میں لفظ الحکمۃ قرآن کے علاوہ صرف ’سنت و حدیث‘ کے لئے مخصوص ہے کیونکہ شریعت کے مقاصد واسرار اور تعلیمات اسی ’حکمت‘ سے حاصل ہوتی ہیں۔

    اما م شا فعی ؒ فرما تے ہیں کہـ

    ’’اﷲنے ’الکتا ب‘ کا ذکر فرما یا ہے۔ وہ تو قرآن ہے اور الحکمۃ: تو اس بارے میں قرآن کے اِن اہل علم سے میں نے سنا ہے کہ الحکمۃ سے مراد رسول ﷺکی ’سنت ‘ ہے۔‘‘

    سید مودودی ؒ فرماتے ہیں

    ’’ظاہر ہے کہ تزکیہ اورکتاب و حکمت کی تعلیم صرف قرآن کے الفاظ سنا دینانہیں بلکہ افرادِ معاشرہ کی تعلیم و تربیت کے لئے تدابیر اختیار کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ نے ان مناصب کے فرائض اور خدمات بحیثیت ِرسولﷺ انجام دیے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو اس منصب پر مامور کیا تھا۔‘‘

    مذکورہ بالا آیات سے یہ بات بھی متعین ہو جاتی ہے کہ کتاب و حکمت کی تعلیم اور تزکیۂ نفوس آپﷺ کی رسالت کی ذمہ داریوں کا ایک حصہ ہیں۔ لہٰذا آپؐ کو رسول ماننے کالازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ کی اس تعلیم و تزکیہ کو بھی قبول کیا جائے، ورنہ آپ ﷺکی رسالت اور قرآن دونوں کاانکار ہو جائے گااوریہ بھی معلوم ہے کہ تعلیم و تزکیہ کی تفصیلات حدیث کے علاوہ کہیں اور نہیں مل سکتیں، اس لئے قرآن کا فہم و ادراک جس قدر آپؐ کو ہو سکتا ہے کسی دوسرے کے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔نزولِ وحی کے انداز،لہجہ و طرزِادا سے مفاہیم ومعانی سمجھنے میں جو آسانی آپ ﷺکو ہو سکتی ہے ،وہ بھی آپﷺکے علاوہ کسی اور کو میسر نہیں آئی۔

    قرآن یہ بھی واضح کرتا ہے کہ رسول اﷲؐ اس اُمت کے پیشوا،قائد اور مثالی نمونہ بھی تھے اور ان کی اتباع سے اِعراض کفر ہے ،ارشاد ہے

    {قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاﷲُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اﷲَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ }

    ’’( پیغمبرﷺ!)کہہ دو کہ اگر تم اﷲ کودوست رکھتے ہوتو میری پیروی کرو،اﷲتمہیں بھی دوست رکھے گا اورتمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔کہہ دو!اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کاحکم مانو، اگر نہ مانیں تو اﷲ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘

    (آل عمران:۳۱،۳۲)

    اور فرمایا

    {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ }

    ’’ تم کو اﷲ کے پیغمبرؐ کی پیروی (کرنی) بہتر ہے( یعنی) اس شخص کو جسے اﷲ (سے ملنے)اور روزِ قیامت (کے آنے کی)امیدہو۔‘‘
    ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضور ﷺ کا کا م صرف قرآن پڑھ کر سنا دینا نہ تھا بلکہ اپنی عملی زندگی کے ہر گوشے میں اﷲ تعالیٰ کی مرضی کی نمائندگی کرنا تھا اور اپنے ہر عمل کے ذریعہ ا ﷲتعالیٰ کے احکام اور اس کی پسند کی نشاندہی کرنا بھی آپ کے منصب ِرسالت کا ایک اہم ترین جزو تھا۔ اس لئے قرآن نے آنحضورﷺکو تشریعی اختیارات بھی دیے ہیں، گو کہ اس کی نسبت آپؐ کی طرف مجازی ہے، آپؐ فرمانِ الٰہی کے مطابق ہی اقدام کرتے ہیں

    { یَأْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰـھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبَائِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ إِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ}

    ’’وہ (رسولﷺ ) ان کو معروف کا حکم دیتا ہے اور اُنھیں منکر سے روکتا ہے اور ان کے لئے پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اور بندھن اتارتا ہے جو اُن پرچڑھے ہوئے تھے۔‘‘

    یہ آیت اس بارے میں صریح اور دو ٹوک ہے کہ اﷲ کی طرف سے امرو نہی اور تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئیں بلکہ جو کچھ نبیﷺ نے حلال و حرام ٹھہرا دیا ہے، جس چیز کا حکم دیدیا ہے اور جس چیز سے منع کر دیا ہے ،وہ بھی وحی الٰہی کے ذریعہ ہی ہوتے تھے لہٰذا وہ بھی احکامِ الٰہی کا ایک حصہ ہیں۔ مولانا محمداسماعیل سلفی ؒفرماتے ہیں

    ’’انسانوں کے ساتھ گفتگو میں اﷲ تعالیٰ کے تین طریقے ہیں: 1۔دل میں الہام خبر 2۔پس پردہ آواز 3۔فرشتہ بصورتِ پیغامبر آجائے۔ پہلے انبیا کے متعلق ممکن ہے کہ ان تینوں طریقوں کے مجموعے سے ان کو مخاطب نہ کیا گیا ہو بلکہ ان میں سے کسی ایک طریقے سے ان پر وحی نازل ہوتی ہو لیکن نبی کریم ؐ کے متعلق فرمایا: {وَکَذٰلِکَ اَوْحَینَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا}’’اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمہاری طرف روح(القدس)کے ذریعے سے (امر) بھیجا ہے۔‘‘

    (الشوری:۵۲)

    مندرجہ بالا وحی کے طریقے تو حدیث شریف کے ہیں البتہ قرآنِ عزیز کے طریقۂ نزول کی وضاحت یوں فرمائی:{ وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ^ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنَ ^ عَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ}

    (الشعرائ:۱۹۲تا۱۹۴)

    ’’ اور یہ (قرآن)پروردگار عالم کااتارا ہوا ہے، اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اُتراہے(اس نے) تمہارے دل پر (القا) کیا ہے تاکہ (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو۔‘‘

    خلاصہ یہ کہ وحی کا انحصار صرف قرآنِ حکیم میں نہیں بلکہ وحی{ اِلَّا وَحْیًا أَوْمِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ }کے طریقو ں پر بھی ہوتی تھی۔

    وحی خفی

    رسول اللہﷺ ایک حکم دیں اور وہ قرآن کریم میں نہ ہو تو جمہور اہل اسلام اس حکم کو مثل قرآن جان کر واجب العمل سمجھتے ہیں۔اس کے دلائل قرآن میں بکثرت ہیں، جس کی ایک مثال تحویل ِ

    قبلہ کی ہے ۔سورۃ البقرۃ میں فرمان الٰہی ہے

    { وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِيْ کُنْتَ عَلَیْھَا۔۔۔فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ}

    (آیت :۱۴۳،۱۴۴)

    مولانا امرتسری ؒ ان آیات کے متعلق فرماتے ہیں

    ’’ ان دو آیتوںمیں ہمار ا استدلال جَعَلْنَاسے ہے۔ جس قبلہ کی تعیین فرمائی گئی ہے،وہ ’’قَبْلَہُ مَعَ اَمْرٍ‘‘ قرآن میں کہیں نہیں۔پس یہ ثابت ہوتا ہے کہکَعْبَۃُ اﷲ کے قبلہ مقرر ہونے سے پہلے مذہبی طورپر کوئی قبلہ مقرر تھا (یعنی بیت المقدس) حالانکہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ آپ ﷺکی تمنا کا ذکر ہوا مگر باوجود تمنا کے آپ ﷺکعبہ تبدیل نہیں کر سکتے تھے جبکہ ’’فَوَلِّ وَجْھَکَ‘‘ حکم الٰہی نازل نہیں ہوا۔اسلامی تاریخ کی شہادت (بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا ) جَعَلْنَاالْقِبْلَۃَسے تعبیر فرمایا تو ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کا ذریعہ علم جو وحی کے ذریعے آپ کو عطا ہوتا وہ صرف قرآن مجید ہی نہ تھا بلکہ کچھ اور بھی تھا جس کو جمہور اہل اسلام وحی خفی کہتے ہیں۔‘‘

    نیز جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ ماضی کا صیغہ ہے،جو یہ چاہتا ہے کہ مجھ سے پہلے قرآن میں کوئی آیت اس مضمون کی ہو جس سے تعین قبلہ، قبل تعینِ کعبہ شریف ثابت ہو سکے۔اگر قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے ( جو کہ ظاہر ہے، نہیں ہے ) تو ما ننا پڑے گا کہ نبیﷺکو دوسری قسم کی وحی، یعنی دوسرا ذریعہ علم بھی اﷲ کی طرف سے تھا۔

    امام ابن حزمؒ فرماتے ہیں

    ’’خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن و حدیث دونوں وحی ہونے کے اعتبار سے متحد ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قرآنِ کریم مخالفین کو چیلنج کرنے کے لئے بہ حیثیت ِمعجزہ قرار دیا گیا اور ا س کے الفاظ لوحِ محفوظ سے نازل کیے گئے جو لکھے ہوئے ہیں اور رسولﷺ یا جبرائیل اس میں کسی قسم کے تصرف کا اختیار نہیں رکھتے مگر حدیث کے معانی نازل ہوتے تھے اور ان کو رسول اﷲﷺ اپنے الفاظ کا جامہ پہناتے تھے۔‘‘

    Comment


    • #3
      Re: سنت نبویہ ﷺ کی حجیت و اہمیت


      حدیث وسنت میں کوئی فرق نہیں!

      ائمہ سلف اور محدثین کے نزدیک حدیث اور سنت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں محدثین نے حدیث کا لفظ نبی کریم ﷺ کے قول،فعل و تقریر کے لئے مختص فرمایا ہے۔ چنانچہ امام راغب اصفہانی ؒ فرماتے ہیں

      ہُوَ عِلْمٌ یُّبْحَثُ فِیْہِ عَنْ اَقْوَالِہٖ ﷺ وَتَقْرِیْرَاتِہ وَاَحْوَالِہ

      ’’وہ علم ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال،افعال،تقریرات ( خاموشی) و احوال کے متعلق بحث کی جاتی ہے۔‘‘

      اور سنت کی تعریف کرتے ہوئے امام جزائری فرماتے ہیں

      أمَّا السُّنَّۃُ فَتُطْلَقُ عَلَی الْاَکْثَرِ عَلیٰ مَا اُضِیْفَ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ مِنْ قَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ أَوْ تَقْرِیْرٍ فَھِيَ مُرَادِفُہ لِلْحَدِیْثِ عِنْدَ عُلَمَائِ الْاُصُوْلِ

      ’’ سنت کا اطلاق زیادہ تر اس قول یا فعل یا تقریر پر ہوتا ہے جس کی نسبت آنحضرت ﷺکی طرف ہو، ہو۔علماے اصول کے ہاں یہ حدیث کے مترادف ہے۔ ‘‘

      امام شاطبی ؒنے سنت کو نقل سے مخصوص کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں

      ’’یُطْلَقُ لَفْظُ السُّنَّۃِ عَلیٰ مَا جَائَ مَنْقُوْلًا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ عَلَی الْخُصُوْصِ مَا لَمْ یُنَصّ عَلَیْہِ فِي الْکِتَابِ الْعَزِیْزِ‘‘

      ’’سنت کے لفظ کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جو آنحضرتﷺ سے منقول ہو۔ خاص طور پر وہ چیز جس پر کتابِ عزیز کی نص نہ ہو‘‘۔

      اسی طرح صاحب ِنور الانوار لکھتے ہیں

      ’’اَلسُّنَّۃُ تُطْلَقُ عَلیٰ قَولِ الرَّسُوْلِ وَفِعْلِہ وَسُکُوْتِہ وَعَلیٰ أَقْوَالِ الصَّحَابَۃ وَأَفْعَالِھِم ‘‘ ’’ سنت کا اطلاق قولِ رسولؐ،آ پﷺ کے فعل اور آپ کی خاموشی پر ہوتا ہے اور صحابہ ؓ کے اقوال اور افعال پر بھی ہوتا ہے۔‘‘

      امام شوکانیؒ فرماتے ہیں

      فَأَمَّا مَعْنَاھَا شَرْعًا فِي اصْطِلَاحِ أَھْلِ الشَّرْعِ فَھِيَ قَوْلُ النَّبِیِّ وَفِعْلُہ وَتَقْرِیْرُہ

      ’’ اہل شرع کی اصطلاح میں سنت کا شرعی معنی نبی ﷺ کا قول،فعل اور تقریر ہے۔‘‘

      نواب صدیق حسن خاںؒ فرماتے ہیں: فَھِيَ قَوْلُ النَّبِيِّ وَفِعْلُہ وَتَقْرِیْرُہ

      ’’سنت کا اطلاق رسول اﷲﷺ کے قول،فعل اور تقریر پر ہوتا ہے۔‘‘
      محدثین اور علماے اُصول کی مندرجہ بالا تعریفات سے یہ بات واضح ہوئی کہ سنت اور حدیث ہم معنی و متساوی و مترادف ہیں اور سنت کا بیان حدیث ہے۔ درحقیقت اتباعِ عمل کے لحاظ سے سنت کی پیروی لازم ہے کیونکہ سنت کی پیروی کے لئے قرآن ناطق ہے اور اس کا بیان حدیث ہے اور قرآن وسنت کی رو سے ان دونوں کی اتباع لازم ہے ۔ اس کی وضاحت درج ذیل اقتباس سے بخوبی ہوجاتی ہے

      ’’کبار محدثین نے اپنی تمام کتب ِاحادیث کو جمع کر کے ان کو سنن سے موسوم کیا ہے ، مثلاً سنن ترمذی، سنن ابی داود اورسنن نسائی وغیرہ، اگر ان کے نزدیک حدیث و سنت میں کوئی فرق ہوتا تو وہ کم از کم ان کتب کا نام ’سنن‘ پر نہ رکھتے۔اس میں اُنہوں نے وہ احادیث جمع کی ہیں جو عمل کے علاوہ آپ کے قول اور تقریرات پر بھی مبنی ہیں،اس کے ساتھ ساتھ ایسی روایات بھی ہیں جن پرنبی کریمﷺ نے تکرار کے ساتھ عمل نہیں کیا۔لہٰذا یہ کہنا کہ کہ سنت سے مراد ایسا معاملہ ہے جس پر آپ ﷺنے ہمیشگی کی ہو، اس پر بار بار عمل کیا ہو، نری جہالت ہے۔ نبیﷺ کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کسی امر کو شریعت باور کرانے کے لئے اس کو بار بار کریں۔ شانِ نبوت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ جس کام کو ایک بار بھی بجا لائیں،اُمتی کے لئے وہ شرع قرار پا جائے۔ مثال کے طور پر نبی کریمؐ نے زندگی میں صرف ایک بار حج کیا،لیکن ایک بار کرنے سے ہی امت کے لئے وہ شریعت قرار پا گیا۔سنت کے لئے تکرار کی شرط قرار دینے والے نامعلوم حج کو کس بنیاد پر سنت ِنبویؐ قرار دیتے ہیں۔‘‘


      فہم قرآن میں حدیث کا بنیادی کردار

      اب ہم ان سوالات کی طرف رجوع کرتے ہیں جو منکرین حدیث عموماً کرتے ہیں۔ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن میں جن جانوروں کو حرام اور جن کو حلال قرار دیا گیا ہے، ان کے علاوہ بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟ نماز کے متعلق قرآن میں جو چند چیزیں مذکور ہیں، ان کے علاوہ نماز کے بقیہ حصوں کی ترکیب کیا ہے؟ زکوٰۃ کم از کم کتنے مال پر فرض ہے؟ کتنے فیصد ہے؟ اور کب فرض ہے؟ مالِ غنیمت کی تقسیم مجاہدین پر کس تناسب سے کی جائے؟ چور کے دونوں ہاتھ کاٹے جائیں یا ایک؟ جمعہ کی نماز کے لئے کب اور کن الفاظ میں پکارا جائے؟ اور وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟ مسلمان ہونے کے لئے کن الفاظ کو اپنے منہ سے اد ا کریں تو اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں؟قرآن تو بڑے زور شور سے کہتا ہے کہ جو اﷲ سے امید ر کھتا ہے اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتا ہے،وہ رسول اﷲﷺ کے نمونہ پر چلے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے

      { لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ أُسْوَۃ حَسَنَۃ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِر}

      ’’تم کو اﷲ کے پیغمبر ؐکی پیروی کرنی بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے اﷲ(سے ملنے)اور روز قیامت (کے آنے) کی امید ہو اور و ہ اﷲ کا کثرت سے ذکر کرتا ہو۔‘‘

      پھر فرمایا

      { وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ}

      ’’ا ور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں۔‘‘
      صحابہ کے متعدد آثار میں حدیث کے کردار کوو اضح کرتے ہوئے بتایاگیا ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں ہے ۔چنانچہ عمران بن حصین سے مروی ہے کہ
      اُنہوں نے ایک شخص سے ( جو سنت و حدیث کا منکر تھا) فرمایا

      ’’ تم بڑے احمق ہو! کتاب اﷲ میں تم نے کہیں پڑھا کہ ظہر کی چار رکعتیں ہیں جس میں قرآن آہستہ پڑھا جاتاہے؟ اس کے بعد اُنہوں نے نماز،زکوٰۃ وغیرہ کے احکام کا ایک ایک کر کے ذکر کیا اور اس سے پوچھا : کیا تمہیں کتاب اﷲ میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں؟ یقینا کتاب اﷲ میں یہ احکام مجمل اور مبہم طور پر مذکور ہیں اور رسول اﷲﷺ نے احادیث میں اِنہی احکام کی تفسیر و تفصیل بیان فرمائی ہے۔‘‘

      اور ایک روایت میں ہے کہ

      ’’بنو اسد قبیلہ کی ایک عورت سیدنا عبداﷲ بن مسعود ؓ کے پاس آئی اور کہا :’’ اے ابو عبد الرحمنؓ ! میں نے سنا ہے کہ آپ نے ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے جو بدن کی کھال گودتی ہیں یا گدواتی ہیں،جو پیشانی کے بال نوچتی یا نوچواتی ہیں،جو دانتوں کے درمیان خوبصورتی کے لئے خلا کرتی یا کرواتی ہیں اور اس طرح اﷲ کی فطری ساخت اور بناوٹ میں تبد یلیاں پیدا کرتی ہیں۔ سیدنا عبداﷲ بن مسعود ؓ نے فرمایا : ’’ میں اس فعل پر کیوں نہ لعنت کروں جس پر اﷲ کے رسول اﷲ ﷺ نے لعنت کی ہے اور وہ قرآن میں بھی موجود ہے۔‘‘ اس پر عورت نے کہا ’’واﷲ میں نے اوّل تا آخر پورا قرآن پڑھا ہے مجھے تو قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ملی، عبداﷲ بن مسعود ؓ نے فرمایا :’’ اگر تو واقعی قرآن پڑھتی تو تجھے یہ آیت ِکریمہ ضرور ملتی کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے

      { وَمَا آتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا }

      نیزنبی کریمﷺ کی تیئس سالہ نبویؐ حیاتِ طیبہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آپ نے بسا اوقات ’ وحی جلی‘ کا انتظار کئے بغیر بھی احکامِ شرعیہ نافذ فرمائے اور قرآن نے ان احکامات کی تصدیق فرمائی کیونکہ سنت کے احکام ’وحی خفی‘ کے ذریعہ اﷲ کی جانب سے نازل ہوتے،لہٰذا قرآنِ مجید کی ضرورت کے لحاظ سے سنت و حدیث قرآن کے ساتھ برابری کا درجہ رکھتی ہے۔
      قرآن کریم نے کچھ احکام کلی اور کچھ اجمالی بیان کئے ہیں جن کی تعلیم و تفہیم کے لئے شارح کی ضرورت تھی جو صاحب ِکتاب کے ذریعہ پوری کردی گئی اور قرآن کو تیئس سال کے عرصہ میں مکمل کرنے کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اس کے ساتھ اس کی تعلیم بھی سنت ِرسولﷺ سے مکمل کرنا اﷲ تعالیٰ کو منظورو مطلوب تھا۔چنانچہ جب ہم قرآنِ کریم کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہاں بے شمار ایسے احکام ہیں جنہیں حدیث کے بغیر سمجھنامحال ہے ۔ لہٰذا حدیث وسنت پر ایمان لانا اور انہیں وحی اور حجت سمجھنا ایک مومن کے لئے واجب ہے ،

      چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے

      { وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲ وَ رَسُوْلُہ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃ مِنْ اَمْرِھِمْ}

      ’’ کسی مؤمن مرد اور عورت کو یہ اختیار نہیں کہ جب اﷲ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔‘‘

      اور یقینا کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی اور حدیث کو حجت تسلیم کئے بغیر قرآن میں جو بھی معنوی تحریف کرنا چاہیں ، آسانی سے کر سکتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں سعید بن جبیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ
      ’’مجھے رسول ﷺ کی جو بھی حدیث ملی، میں نے اسکا مصداق کتاب اﷲ میں ٹھیک ٹھیک پایا۔‘‘

      مشہور مسلم مفکر محمد اسد تحریر فرماتے ہیں

      ’’آج جبکہ اسلامی ممالک میں مغربی تہذیب کا اثر و نفوذ بہت بڑھ چکاہے۔ہم ان لوگوں کے تعجب انگیز رویہ میں جن کو ’روشن خیال مسلمان‘ کہا جاتا ہے،ایک اور سبب پاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں: ’’ ایک ہی وقت میں رسول اﷲ ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا اور زندگی میں مغربی تہذیب کو اختیار کرنا ناممکن ہے۔جن لوگوں کی نگاہوں کو مغربی تہذیب و تمدن خیرہ کر چکا ہے، وہ اس مشکل سے اپنے آپ کو اس طرح نکالنا چاہتے ہیں کہ سنت و حدیث کا با لکل یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ سنت ِنبوی ﷺ کا اتباع مسلمانوں پر لازم نہیں۔کیونکہ اس کی بنیاد ان احادیث پر ہے جو قابل اعتبار نہیں ہیں۔اس مختصر عدالتی فیصلے کے بعد قرآن کریم کی تعلیمات کی تحریف کرنا اور مغربی تہذیب و تمدن کی رو ح سے انہیں ہم آہنگ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ سنت ِنبویﷺ ہی وہ آئینی ڈھانچہ ہے جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے اگر آپ کسی عمارت کا ڈھانچہ ہٹا دیں تو کیا آپ کو اس پر تعجب ہو گا کہ عمارت اس طرح ٹوٹ جائے گی جس طرح کاغذ کا گھروندا۔‘‘

      مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒفرماتے ہیں


      ’’ہمارے دوست (منکرین حدیث ) غور کریں کہ یہ کونسا مقام ہے جو آپ نبی ﷺ کوعنایت فرما رہے ہیں۔وہ دیانتا ًسوچیں کہ مقام نبوت اور عام عالم کے مقام میں کیا فرق ہے؟‘‘

      Comment

      Working...
      X