Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عجمی تصورات کا پہلا دور

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عجمی تصورات کا پہلا دور


    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    فرقہ جہیمیہ
    اسلام پہلی صدی ہجری کے اواخر تک عجمی تصورات سے محفوظ و مامون رہا۔۔۔ دوسری صدی کے آغاز میں ہشام بن عبدالمالک (١٠٥ تا ١٢٥ھ) کے زمانے میں ایک شخص جہم بن صفوان ظاہر ہوا جو ارسطو کے نظریہ ذات باری سے متاثر تھا اور بزعم خویش اللہ تعالٰی کی مکمل تنزیہہ بیان کرتا تھا۔۔۔وہ بھی اللہ کے متعلق تجریدی تصورات کا قائل تھا اور اللہ تعالٰی کی ان صفات کی نفی کرتا تھا جو قرآن و سنت میں وارد ہیں اس نے تنزیہہ الٰہی میں اس قدر مبالغہ اور غلو سے کام لیا کہ بقول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو لاشئے اور معدوم بنا دیا۔۔۔ وہ اللہ کے لئے جہت یا سمت متعین کرنے کو شرک قرار دیتا تھا وہ اللہ کی طرف ہاتھ، پاؤں، چہرہ، پنڈلی، جن کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے کی نسبت کرنے کو بھی ناجائز قرار دیتا تھا وہ اس آیت۔۔۔۔۔


    پھر وہ عرش پر جا ٹھہرا(لاعراف۔٥٤)۔۔۔


    رحمٰن نے عرش پر قرار پکڑا (طہ۔٥)۔۔۔


    میں لفظ استوٰی کا ترجمہ استولٰی سے کر کے بزعم خویش اللہ تعالٰی کی تنزیہہ بیان کرتا تھا امام ابن قیم نے اپنے قصیدہ نونیہ کے درج ذیل شعر میں اسی چیز کی وضاحت فرمائی ہے۔۔۔


    یہودیوں کا (ن) حطۃ کی بجائے حنفطۃ کہا اور جہمیہ کا ل (استوٰی کو استولٰی کہنا) رب العرش کی وحی سے زائد ہیں۔۔۔
    یہودیوں نے حطۃ کی بجائے حنطۃ گندم یا معاشی فروانی کا مطالبہ کہہ کر وہ بات کہہ دی جس کی طرف ان کی عقل نے رہنمائی کی۔۔۔۔


    اب سوال یہ ہے کہ جب خود اللہ تعالٰی نے اپنے لئے عرش پر قرار پکڑنے یا اپنے ہاتھوں، چہرہ، پنڈلی، وغیرہ کا ذکر غیر مبہم الفاظ میں قرآن کریم میں فرمایا ہے تو اس کی تنزیہہ خود اس سے زیادہ بہتر اور کون کر سکتا ہے؟؟؟۔۔۔ رہی یہ بات کہ اس کا عرش کیسا ہے؟؟؟۔۔۔ یا وہ خود کیسا ہے اور کس طرح اس نے عرش پر قرار پکڑا ہے یا اس کا چہرہ اور ہاتھ کیسے ہیں تو ہم یہ جاننے کے مکلف نہیں ہیں کیونکہ اس نے خود ہی فرما دیا ہے (لا تضربوا للہ الامثال) نیز فرمایا۔۔۔(لئس کمثلہ شئی)۔۔۔ تو بس مسلمان کا ایمان یہ ہونا چاہئے کہ جو کچھ قرآن میں مذکور ہے اس کو جوں کا توں تسلیم کرے اسے عقل اور فلسفہ کی سان پر چڑھا کر اس کی دور ازکار تاویلات وتحریفات پیش کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں اور نہ ہی قرآن ایسی فلسفیانہ موشگافیوں کا متحمل ہو سکتا ہے کیونکہ جن لوگوں پر یہ قرآن نازل ہوا تھا وہ اُمی اور فلسفیانہ موشگافیوں سے قطعا نابلد تھے پھر یہ قرآن اشاروں اور کناروں کی زبان میں نہیں اترا بلکہ عربی مبین میں نازل ہوا ہے ایسی ٹھیٹھہ اور آسان زبان جسے ان پڑھ لوگ بخوبی سمجھ جاتے تھے۔۔۔


    ارسطو کی تعلیمات کی تائید میں جہم بن صفوان کے لئے یہ تصور بھی ناممکن تھا کہ اللہ تعالٰی کسی سے خوش یا کسی پر ناراض ہوسکتا ہے اور جو آیات مثلا (رضی اللہ عنہم ورضواعنہ) یا (غضب اللہ علیھم) وغیرہ قرآن پاک میں وارد ہیں ان سب کی دوراز کار تاویلات پیش کر کے اللہ تعالٰی کی صفات سے نتزیہہ کرتا تھا پھر جو لوگ اس کے ہم خیال پیدا ہوئے اور اس کے نام کی نسبت سے جہمیہ کہلائے یہ لوگ ذات و صفات باری تعالٰی کے متعلق اختلافات کے علاوہ کئی دوسرے امور میں بھی اہل سنت الجماعت سے اختلاف رکھتے تھے لیکن انہیں یہاں زیر بحث لانا مقصود نہیں۔۔۔


    علاوہ ازین مسئلہ تقدیر میں یہ لوگ انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے وہ انسان کے ارادہ کو من جانب اللہ تصور کرتے تھے ان کی دلیل یہ تھی کہ انسان خود مخلوق اللہ ہے لہذا مخلوق کے ارادہ کا مخلوق ہونا لازم آتا ہے اسی طرح انسان کے افعال کا خالق بھی اللہ ہے انسان کی طرف افعال کی نسبت محض مجازی ہے رہا جزاء اور سزا کا مسئلہ تو جس طرح افعال جبری ہیں اسی طرح جزاء اور سزا بھی جبری ہے یعنی جس طرح جبر کی بناء پر انسان اچھے اور بُرے افعال کرتا ہے اسی طرح جبر ہی کی بناء پر اسے جزاء اور سزا بھی دی جاتی ہے۔۔۔(مسئلہ جبروقدر صفحہ ١٥٨ از مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ)۔۔۔


    معتزلین
    اسی زمانے میں ایک اور شخص واصل بن عطاء ( ٨٠ تا ١٣١ھ) کا ظہور ہوا مشہور یہ ہے کہ واصل بن عطاء حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ (م ١١٠ھ) کے درس میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ اس کا حضرت حسن بصری سے یہ اختلاف ہوا کہ آیا گناہ کا مرتکب مومن ہی رہتا ہے (جیسے مرجیہ کا خیال تھا) یا کافر ہو جاتا ہے۔(جیسا کہ خوارج کہتے تھے) حضرت حسن بصری کا یہ خیال تھا کہ وہ منافق ہوتا ہے دراصل بن عطاء نے اس مسئلہ میں ان سے اختلاف کیا اور اپنے ہمنوا ساتھیوں کو لے کر آپ کے حلقہ درس سے اُٹھ کر مسجد کے کسی دوسرے کونے میں الگ جا بیٹھا تو حسن بصری نے کہا کہ (اعتزال عنا) یعنی وہ ہم سے کنارہ کر گیا ہے۔۔۔


    لیکن بات صرف اتنی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ واصل بن عطاء (٨٠ تا ١٣١ھ) ایک مکتب فکر کا بانی بن کر سامنے آیا جو بعد میں اعتزال کے نام سے مشہور ہوا ذات باری تعالٰی کے متعلق اس کے عقائد جہم بن صفوان سے ملتے جلتے تھے یونانی فکر کا رنگ اس پر بھی غالب تھا اس کے معتقدین بعد میں معتزلہ کہلائے سیاسی لحاظ سے بھی ان لوگوں کے بعض عقائد اہلسنت والجماعت سے مختلف تھے لیکن یہ بات ہمارے موضوع سے خارج ہے۔۔۔


    جب ہارون الرشید (١٤٧ تا ١٧٠ھ) کے عہد میں یونانی فلسفہ کے تراجم عربی زبان میں شائع ہوئے تو یہ خیالات عام مسلمانوں تک پہنچے تو اس کے نتیجہ میں مسلمانوں میں دو قسم کے گروہ پیدا ہو گئے ایک گروہ وہ تھا جس نے قرآن و سنت کے مقابلہ میں ارسطو کے نظریات الٰہیہ کو کلیتا رد کر دیا دوسرا گروہ ان ذہین فطین لوگوں کا تھا جس نے محض اس بات پر ہی اکتفا نہ کیا کہ یونانی فلسفہ کو رد کر دیا جائے بلکہ انہوں نے عام مسلمانوں کو اس یونانی فلسفہ کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی خاطر فلسفہ کا جواب عقلی دلائل سے پیش کیا اور علم کلام کی طرح ڈالی ایسے لوگوں میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ (میلاد ٢٤٠ھ) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (میلاد ٢٥٠ھ) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں متاخرین میں شاہ ولی اللہ صاحب نے ایسی ہی خدمات سرانجام دیں۔۔۔


    اور تیسرا گروہ وہ ایسا پیدا ہوا جس نے یونانی افکار و نظریات سے مرعوب ہو کر اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور ان کو من و عن قبول کر لیا اس گروہ کی تخم ریزی تو پہلے واصل بن عطاء کر ہی چکے تھے یونانی افکار و نظریات سے تقویت پا کر ایک منظم فرقہ کی حیثیت سے سامنے آئے ان کے مخالفین تو انہیں معتزلین کے نام سے پکارتے تھے لیکن یہ لوگ خود کو (اہل العدل والتوحید) کہتے تھے گویا یہ لقب ان ہر دو گونہ نظریات کا جن سے وہ عام مسلمانوں سے اختلاف رکھتے تھے ترجمان تھا۔۔۔


    معتزلہ کے عقائد و نظریات


    ١۔ مسئلہ تقدیر یا جبرو قدر
    اہل عدل کے لفظ سے وہ اپنے مخصوص عقیدہ قدر کی وضاحت کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ انسان اپنے اعمال و افعال میں خود مختار ہے باری تعالٰی بس ان افعال کا خاموش تماشائی ہے اس کی بلند ذات انسان کے معاملات میں وخیل ہونا پسند نہیں کرتی انسان جس طرح اس طبعی دنیا میں قوانین طبعی کا پابند ہے اگر وہ آگ میں ہاٹھ ڈالتا ہے تو ہاتھ کا جلنا ناگزیر ہے اسی طرح اسے اپنے برُے اعمال کا عذاب یا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے اگر انسانی اعمال میں اللہ کو دخیل مان لیا جائے تو قیامت کے دن اللہ تعالٰی کی طرف سے انسان کا محاسبہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اسی طرح اگر انسان اعمال کو اللہ تعالٰی کے ارادہ و منشاء کے تابع قرار دیا جائے تو پھر انسان کو عذاب دینا معاذ اللہ ظلم کا ارتکاب ہے جس سے وہ ذات پاک ہے اس دعوٰی کے ثبوت میں دوسری دلیل یہ پیش کرتے تھے کہ اگر انسان اعمال اللہ کی مرضی کے تابع ہوں اور انسان مجبور ہو تو پھر اسے انبیاء کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟۔۔۔


    تقدیر کی بحث
    یہ مسئلہ بہت پرانا ہے اس پر کئی طرح سے بحث ہو چکی ہے اس مسئلہ نے اس دور میں اتنا طول کھنچا کہ دو الگ الگ فرقے (قدریہ) اور ( جبریہ) معرض وجود میں آگئے دونوں اپنے اپنے دلائل دیتے تھے مگر کوئی دوسرے کو اپنا ہمنوا نہ بنا سکا حالانکہ یہ مسئلہ اتنا مشکل اور ٹیڑھا نہ تھا جتنا کہ اسے بنا دیا گیا حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ عقلی دلائل اور علت و معلول کی کڑیاں ملانے سے حل ہونے والا نہیں اس کے لئے صرف اپنے دل کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے اس مسئلہ کو اللہ تعالٰی نے درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ!۔


    اور اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی گزند پہنچے تو کہتے ہیں (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ تمہاری وجہ سے ان سے کہہ دو سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے (النساء ٧٨)۔۔۔


    گویا خلاق فطرت انسان کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے کہ وہ اتنی موٹی سی بات بھی سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا ہم دیکھتے ہیں کہ ہم جو بھی ارادہ کریں اور پھر اس کو کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو وہ کام عموما ہو جاتا ہے پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسا رادہ بھی کرتے ہیں اور اس کیلئے سر توڑ کوشش بھی لیکن وہ کام سرانجام نہیں پاتا کیونکہ انسانی اعمال، افعال، میں خارجی عوامل یا اتفاقات کو بھی بہت بڑا دخل ہے زلزلے، سیلاب، قحط، بیماری، لڑائیاں، معاشی اتار چڑھاؤ، اکثر انسانوں کی پوری زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں اور اسکے ان سارے نقشوں کو درہم برہم کر ڈالتے ہیں جو اس نے اپنی راحٹ اور کامیابی کیلئے بڑی سوچ بچار اور بڑی کوششوں سے بنائے تھے پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہی اتفاقات انسان کو ایسی کامیابیوں سے ہمکنار کر دیتے ہیں جن کے حصول میں فی الواقع اسکی اپنی کوشش کا ذرہ بھر بھی عمل دخل نہیں ہوتا ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے اعمال و افعال میں بس ایک حد تک خود مختار ہے مختار کل نہیں ہے اب اس اختیار واضطرار کی حدود مقرر کرنا انسان کے بس کی بات نہیں یہ سوال درحقیقت یوں بنتا ہے کہ اس کائنات میں خالق کائنات کا دستور اساسی کیا ہے؟؟؟۔۔۔ اور اس میں کچھ انسان کا حصہ بھی ہے یا نہیں؟؟؟۔۔۔ اور اگر ہے تو کتنا ہے؟؟؟۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ یہ بات انسان کی عقل و فہم سے بالاتر ہے۔۔۔


    افعال کی نسبت!۔
    اور دوسرا سوال یہ ہے کہ انسان کے بعض افعال کی نسبت قرآن کریم میں بعض مقامات پر بندے کی طرف کی گئی ہے اور بعض مقامات پر اللہ کی طرف خواہ وہ اچھے ہوں یا بُرے ہوں پھر کبھی بُرے افعال کی نسبت خود انسان یا شیطان کی طرف کی گئی ہے اور اچھے اعمال کی اللہ کی طرف تو اس کی کیا وجہ ہے؟؟؟۔۔۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی ایک فعل کے متعدد اسباب ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک سبب کی طرف نسبت کردی جائے تو وہ نسبت ٹھیک ہی سمجھی جاتی ہے مثلا ایک بادشاہ کسی ملک کو فتح کرتا ہے تو یوں بھی کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے فلاں ملک فتح کیا اور یوں بھی کہ فوج نے ملک کو فتح کیا اور یوں بھی کہ فلاں فلاں نامور افراد نے اس ملک کو فتح کرنے میں اہم کردار ادا کیا اب یہ ایک ایسا مربوط سلسلہ ہے کہ اس میں کسی ایک کا حصہ متعین نہیں کیا جا سکتا بعینہ یہی صورت حال انسان کے افعال کی ہے۔۔۔


    اب ان کی مثالیں دیکھئے!۔


    ١۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے ان کو اللہ پورا پورا بدلہ دے گا (ال عمران۔٥٧)۔۔۔


    ٢۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے پر چلاتا ہے (البقرۃ۔١٤٢)۔۔۔


    انسان کے بُرے اعمال کی نسبت انسان کی طرف!۔
    ٣۔ اور جو بُرائی تجھے پہنچے تو وہ تیری شامت اعمال کی وجہ سے ہے (النساء۔٧٩)۔۔۔


    انسان کے بُرے اعمال کی نسبت شیطان کی طرف!۔
    ٤۔ شیطان تمہیں تنگدستی کا خوف دلاتا اور بے حیائی کے کاموں کا حکم دیتا ہے (البقرۃ۔٢٦٧)۔۔۔


    انسان کے بُرے اعمال کی نسبت اللہ کی طرف!۔
    ٥۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جس شخص کو اللہ نے گمراہ کر دیا ہے اسے راستے پر لے آؤ اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کے لئے آپ کوئی راہ نہیں پائیں گے (النساء۔٨٨)۔۔۔


    اچھے اور بُرے اعمال کی نسبت انسان کی طرف!۔
    ٦۔ جو کچھ تم کرتے ہو آج تم کو اس کا بدلہ دیا جائے گا (الجاثیہ۔٢٨)۔۔۔


    اچھے اور بُرے اعمال کی نسبت اللہ کی طرف!۔
    اور اللہ نے ہی تمہیں پیدا کیا اور اس کو بھی جو تم کام کرتے ہو (الصافات۔٩٦)۔۔۔






    چونکہ انسان کے کسی عمل یا فعل میں ان مختلف عوامل کے کارکردگی کے حصے متعین کرنا انسانی عقل کے احاطہ و ادراک سے باہر ہے جیسا کہ ہر دور کے علماء اور مفکرین اس گتھی کو سلجھانے سے قاصر رہے ہیں اسی بناء پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ تقدیر کو زیر بحث لانے اور عقلی دلائل سے حل کرنے سے منع کر دیا کیونکہ قضاء و قدر کا سوال حقیقت میں یہ سوال ہے کہ اللہ سبحان وتعالٰی کی سلطنت کا دستور اساسی کیا ہے؟؟؟۔۔۔ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپس میں مسئلہ تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہ باتیں سُن کر اُن کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ!۔


    کیا انہی باتوں کا تم کو حکم دیا گیا ہے کیا اسی لئے میں تم میں بھیجا گیا ہوں؟؟؟۔۔۔ ایسی ہی باتوں سے پچھلی قومیں ہلاک ہوئیں، میرا فیصلہ یہ ہے کہ تم اس معاملہ میں جھگڑا نہ کرو (مشٰکوۃ، کتاب الایمان الفصل الثانی)۔۔۔


    جو شخص تقدیر کے بارے میں گفتگو کرے گا قیامت کے دن اس سے سوال کیا جائے گا جو خاموش رہے گا اس سے کچھ سوال نہ ہوگا (مشکوٰۃ، حوالہ ایضا)۔۔۔


    ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مکان پر رات کو تشریف لے گئے اور پوچھا تم لوگ (یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ) تہجد کی نماز کیوں نہیں پڑھتے؟؟؟۔۔۔


    حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا!۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے گا کہ ہم اُٹھیں تو اُٹھ جائیں گے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فورا واپس ہوگئے اور اپنی ران مبارک پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ!۔


    انسان اکثر باتوں میں جھگڑالو واقع ہوا ہے (الکھف۔٥٤)۔۔۔


    اس حدیث سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں!۔


    ١۔ انسان عموما ایسی جبریت کا اس وقت سہارا لیتا ہے جب وہ اپنے میں کچھ کمی یا قصور دیکھتا ہے۔
    ٢۔ اپنے قصور کو مان لینے کے بجائے اسے کسی دوسرے کے سر تھوپنا جھگڑے اور فساد کی بنیاد ہوتی ہے۔
    ٣۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جواب کی تردید نہیں فرمائی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ جو قوت اختیار و ارادہ اس معاملہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاصل تھا اس کی انہوں نے نفی کردی تھی حالانکہ انسان کے سب افعال میں اللہ کے ساتھ انسان کا بھی اشتراک ہے۔۔۔


    لیکن افسوس کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے واضع احکامات کے باوجود دوسری قوموں کے مسائل فلسفہ و طبیعات کا مطالعہ کرنے سے یہ مسئلہ مسلمانوں میں بھی داخل ہوگیا اور اس کثرت سے اس پر بحث کی گئی ہے کہ آخر کار یہ مسئلہ اسلامی علم کلام کے مہمات مسائل می شمار ہونے لگا۔


    تاویلات!۔
    جیسا کہ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ قرآن کریم میں بعض آیات ایسی ہیں جن سے انسان کے مکمل صاحب اختیار ہونے کا پہلو نکلتا ہے اور ان سے جبر کا پہلو نکالنا ممکن نہیں لیکن جبریہ حضرات اور جہمیہ ان آیات کی بھی ایسی دور اذکار تاویلات پیش کرتے ہیں جنہیں عقل سلیم تسلیم کرنے سے ابا کرتی ہے اور ان تاویلات سے بھی وہ شخص تو شاید مطمئن ہو سکے جو پہلے سے ہی ایسا نظریہ قائم کر چکا ہو لیکنجس شخص کو قرآن سے رہنمائی حاصل کرنا مقصود ہو اس کے لئے تو ایسی تاویلات رہنمائی کے بجائے شدید الجھن کا باعث بن جاتی ہیں یہی حال ایسی آیات کی تاویل کا ہے جو انسان کو مجبور بتاتی ہیں اور ان سے اختیار کا پہلو نکالنا مشکل معاملہ بن جاتا ہے لیکن قدریہ ان کی ایسی ہی تاویلات کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں اسی طرح دونوں فرقوں کی تاویلات نے خود قرآن کریم کو ہی تضادات کا گورکھ دھندہ بناکے رکھ دیا۔۔۔


    عدل یا قانون جزاء و سزا!۔
    قانون جزاء و سزا یہ ہے کہ انسان اپنے کسی فعل یا عمل میں جس قدر مختار ہوتا ہے اسی حد تک وہ اس کا ذمہ دار ہے اور جہاں سے اضطرار کی کیفیت شروع ہوتی ہے اس سے جزاء و سزا کی تکلیف اس سے اٹھا لی جاتی ہے اس کی مثال یوں سمجھئے کہ کوئی شخص اگر آپ کو گالیاں دے تو آپ اس کو جواب میں یا تو گالی دیں گے یا پتھر سے ماریں گے یا کم از کم سخت سست ہی کہیں گے لیکن اگر وہی گالی دینے والا شخص دیوانہ ہو تو آپ اسے معذور سمجھیں گے اور اس سے کوئی تعرض نہیں کریں گے دیکھیئے درج ذیل آیات کسی خوبی سے اس بات کی وضاحت پیش کر رہی ہیں!۔


    اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے کوشش کی اور بلاشبہ اس کی کوشش کو دیکھا جائے گا پھر اس کا پورا پورا بدلہ اس کو دیا جائے گا ( النجم۔٣٩ تا ٤١)۔۔۔


    یعنی کسی انسان کے عمل میں انسان کا جتنا حصہ ہے صرف اسے دیکھا جائے گا پھر اسے اس کے مطابق بدلہ دیا جائے گا نہ کم نہ زیادہ بلکہ اس کا پورا پورا بدلہ یہیں سے یہ نکتہ حل ہو جاتا ہے کہ حقیقی عدل کرنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا جو اعمال کی قدروقیمت اس کی جزاء کا حساب رکھ سکے اور دوسرا یہ کہ حقیقی عدل کے قیام کے لئے اخروی زندگی اور اس پر ایمان لانا ناگزیر ہے کیونکہ اگر ایسا حقیقی عدل اسی دنیا میں ہی ملنا شروع ہو جائے تو دنیا سے نوع انسانی تو درکنار ہر جاندار چیز کا خاتمہ ہی ہو جائے گا بموجب ارشاد باری تعالٰی ہے کہ!۔


    اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب پکڑنے لگتا تو روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا (الفاطر۔٤٥)۔۔۔


    صفات باری تعالٰی!۔
    معتزلہ کی توحید!۔
    اور اہل توحید کے لفظ سے معتزلہ اپنے اس مخصوص عقیدے کی وضاحت کرتے تھے جو ارسطو نے پیش کیا تھا اور بڑے طمطراق سے یہ دعوے کرتے تھے کہ وہ توحید خالص کے قائل ہیں اور باری تعالٰی کو ہر قسم کے شرک سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں باری تعالٰی یکتا ہے قدیم ہے اس معاملے میں کوئی دوسری صفت یا چیز اس کی شریک و سہیم نہیں اور اگر اس کی صفات بھی اسی کی طرح ازلی و ابدی مان لی جائیں تو تثبیت قدماء لازم آتی ہے جو شرک ہے چنانچہ یہ لوگ خدا کی صفات مثلا علم قدرت، حیات، سمع وبصر وغیرہ کو اس معنی میں مانتے تھے کہ وہ فی ذاتہ قادر ( حی ) سمع و بصیر ہے اس کی کوئی صفت اس کی ذات پر الگ یا زائد نہیں۔۔۔


    اب ظاہر ہے کہ اللہ کے متعلق ایسے تجریدی تصور کا جس میں اللہ کی حیثیت ریاضی کے ایک کملہ کی سی رہ جاتی ہے جس کے مطابق ہر سبب لازمی طور پر ایک نتیجہ برآمد کرتا ہے اور علت و معلول کا یہ بے جان اور ارادہ و اختیار سے یکسر عاری نظام اس کائنات کو میکانکی طور پر چلارہا ہے اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اسلام میں اللہ کی ذات ستودہ صفات ہے جس کی زندگی میں حرارت ہے اور کائنات سے گہری محبت رکھتا ہے جو صاحب ارادہ ہے وہ علیم وبصیر ہے اور کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے نہ صرف اسے وہ اچھی طرح دیکھتا اور جانتا ہے بلکہ اس کی براہ راست نگرانی کر رہا ہے انسان جب تک ایسی حی وقیوم ہستی پر ایمان نہیں لاتا اس وقت تک اسے ذہنی سکون اور قلبی اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا ریاضی کے لگے بندھے فارمولوں و معلول کی بےجان کڑیوں یا مجرو تصور سے اخلاق و روحانیت کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے گویا معتزلین نے ایک طرف تو اللہ کو معطل بنا دیا اور دوسری طرف انسان کو مکمل خود مختار بنادیا۔۔۔


    معتزلہ کے یہ عقائد ہر چند گمراہ کن تھے اور مسلمانوں کی اکثریت نے انکو مردود قرار دے دیا تھا تاہم ایک وجہ ایسی پیدا ہوگئی جو معتزلہ کی شہرت دوام کا باعث بن گئی عباسی خلیفہ (١٣٤ تا ١٥٨) واصل بن عطاء سے متاثر تھا اسلئے واصل بن عطاء کو بڑا بلند مرتبہ حاصل تھا تاہم خلیفہ منصور نے یہ خیالات اور عقائد اپنی ذات تک محدود رکھنے اور انکو رعایا پر ٹھوسنے کی کوشش نہ کی یہ عقائد عباسی خلفاء میں پرورش پاتے رہے ہوتے ہوتے جب مامون الرشید کا دور (١٩٨ تا ٢١٨ھ) آیا تو ان عقائد نے سنگین صورت اختیار کر لی کیونکہ مامون خود پکا معتزلی تھا اور اس نے یہ عقائد بہ جبر مسلمانوں پر ٹھوسنے کی کوشش کی۔۔۔


    مسئلہ خلق قرآن!۔

    مشہور مسئلہ خلق قرآن اسی کے دور کی پیداوار ہے یہ مسئلہ دراصل معتزلہ کے متعلق تجریدی تصور کا ایک حصہ تھا وہ اللہ کی دوسری صفات کی طرح بولنے اور کلام کرنے کی صفت کو بھی حادث سمجھتے تھے لہذا قرآن کو قدیم کی بجائے حادث یا مخلوق تسلیم کرنا لازم آتا تھا خلق قرآن کے مسئلہ میں مامون الرشید عام معتزلین سے بھی چار قدم آگے بڑھ گیا تھا علماء اور جمہور اسلام نے مامون کو بدعتی کہنا شروع کر دیا تھا تو اس سے وہ اور بھی متشدد ہوگیا اس نے حاکم بغداد اسحاق بن ابراہیم کو فرمان بھیجا کہ۔۔۔


    ١۔ جو لوگ قرآن کو غیر مخلوق سمجھتے ہیں ان کو سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا جائے۔
    ٢۔ ان کی شہادتیں ناقابل اعتماد قرار دی جائیں۔
    ٣۔ دارالخلافہ کے ممتاز علماء کے خیالات دربارہ خلق قرآن قلمبند کر کے میرے پاس بھیجے جائیں۔


    چنانچہ حاکم بغداد نے بیس علماء کے بیانات درج کر کے خلیفہ کو بھیجے جن میں اکثر علماء نے معتزلہ عقائد کی صریحا نفی کی تھی کچھ نے گول مول جواب دیا مامون ان بیانات پر سخت برہم ہوا اور حکم دیا کہ جو لوگ قرآن کو مخلوق نہ مانیں انہیں فورا گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دیا جائے۔۔۔


    امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ!۔

    یہ فرمان شاہی سن کر کم بیش سب علماء نے اپنی جان بچانے کی خاطر قرآن کو مخلوق کہہ دیا صرف چار علماء امام احمد بن حنبل، محمد بن نوح، قواریزی رحمہم اللہ وغیرہ اپنے اصلی مسلک پر قائم رہے اسحاق حاکم بغداد نے انہیں بوجھل بیڑیاں پہنا کر بغداد کی طرف روانہ کر دیا۔۔۔


    مقام حیرت ہے کہ مامون جیسا عالی ظرف اور متحمل مزاج انسان اس مسئلہ پر اتنا تنگ خیال اور متعصب ثابت ہوا اور ایک فلسفیانہ خیال کے پیچھے لگ کر اور اس سوال کو مذہبی رنگ دے کر خواہ مخواہ امت میں انتشار پیدا کر دیا وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھنے والوں کو مشرک سمجھتا تھا چنانچہ اس نے کئی علماء برحق کو اپنے ہاتھ سے اسی مسئلہ کی وجہ سے تہ تیغ کر کے دارالسلطنت کی گلیوں کو رنگین کر دیا جب اسے ان چار آدمیوں کے قافلہ کی روانگی کا علم ہوا تو یک دم جوش غضب سے بھر گیا وہ اپنی تلوار ہوا میں لہراتا اور قسم کھا کر کہتا تھا کہ میں ان لوگوں کو قتل کئے بغیر نہ چھوڑوں گا۔۔۔


    سرکاری خدام میں سے ایک شخص امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کا دل سے معتقد تھا وہ کسی طرح اس قافلے کو جا کر ملا اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے صورت حال بیان کی امام صاحب کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی البتہ آپ نے اللہ تعالٰی سے اپنے لئے رحم و مغفرت کی دُعا فرمائی وہ مستجاب ہوئی مامون پر تپ لرزہ کا ایسا شیدید حملہ ہوا کہ ہزار کوشش کے باوجود جانبرنہ ہوسکا یہ قافلہ ابھی راستہ ہی میں مقام رقہ پر پہنچا تھا کہ مامون کے انتقال کی خبر آگئی اور یہ لوگ واپس بغداد بھیج دیئے گئے۔۔۔


    امام موصوف پر دور ابتلاء!۔
    مامون کے بعد اس کا بھائی معتصم باللہ (٢١٨ تا ٢٢٧ھ) تخت نشین ہوا یہ شخص گو علم ادب سے بیگانہ تھا مگر معتزلی عقائد میں اپنے پیش رو سے بھی زیادہ سخت تھا اس کے عہد کا افسوسناک واقعہ یہ ہے کہ اس نے کئی بار امام صاحب کو کوڑوں سے پٹوایا عموما روزانہ دس کوڑوں کی سزا دی جاتی اس سے بعض دفعہ امام صاحب بیہوش بھی ہو جاتے انہی دنوں کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک ڈاکو ابو الہیثم نے بڑی کوشش سے امام احمد سے تنہائی میں ملاقات کی اور آپ سے پوچھا کہ آپ کو یقین ہے کہ آپ حق پر ہیں امام صاحب نے فرمایا میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ میں حق پر ہوں ابو الہیثم کہنے لگا مجھے دیکھئے ساری عمر ڈاکہ زنی میں گزری کئی ڈاکے ڈال چکا ہوں اور کئی مرتبہ گرفتار ہوا۔ آج تک اٹھارہ سو کوڑے کھا چکا ہوں لیکن کبھی اپنے جرم کا اعتراف نہیں کیا اور آپ حق پر ہیں لہذا کوڑوں کے ڈر سے آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آنی چاہئے امام صاحب زندگی بھر اس ڈاکو کو دعائیں دیتے رہے جس نے ایسے نازک وقت میں ان کے پائے ثبات کو مزید استحکام بخشا۔۔۔


    امام صاحب کی سزا اور موت کا مسئلہ دراصل ان کی ذات تک محدود نہ تھا عوام الناس کو امام موصوف سے گہری عقیدت تھی لہذا حکومت انہیں قتل کر کے بغاوت کا خطرہ مول نہیں لے سکتی تھی اور سزا کو قید خانہ اور کوڑوں تک محدود رکھتی تھی مشہور سرکاری اور معتزلی عالم احمد ببن ابی داؤد کے امام موصوف سے مناظرے بھی کرائے جاتے اور جب ابن ابی داؤد امام صاحب کے دلائل سے لاجواب ہو جاتا تو بالآخر یہ کہہ کر خلیفہ کو ابھارتا تھا کہ یہ شخص بدعتی اور ہٹ دھرم ہے ادھر عوام الناس کی نظریں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ پر جمی ہوئی تھیں اگر امام صاحب اس مسئلہ میں تھوڑی سی بھی لچک پیدا کر لیتے تو لوگوں کی عام گمراہی کا بھی خطرہ تھا لہٰذا کوڑے کھاتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے القرآن کلام اللہ غیر مخلوق گویا یہ مسئلہ اب امام صاحب کی زندگی اور موت کا مسئلہ نہ تھا بلکہ تمام اُمت کی ہدایت و ضلالت کا مسئلہ بن چکا تھا اگر اس موقع پر امام صاحب ہار تسلیم کر لیتے تو اس کا دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا تھا کہ حکومت وقت عقائد اور دینی امور میں تغیر و تبدل کا حق رکھتی ہے اور یہ بات امام صاحب کو قطعا گوارا نہ تھی نہ ہی امت کا اجتماعی ضمیر اس کے لئے تیار تھا چنانچہ صراحتا نہیں تو باتوں باتوں میں لوگ خلیفہ تک اپنے خیالات کا اظہار کر بھی دیتے تھے۔۔۔۔


    خلق قرآن کی حقیقت اور معتزلہ کا انجام!۔
    معتصم کے بعد اس کا بیٹا واثق باللہ (٢٢٧ تا ٢٣٢ھ) تخت و تاج کا وارث بنا یہ معتزلہ عقائد کی اشاعت میں اپنے باپ سے بھی بڑھ گیا اس کے دور میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا دربار کا خاص مسخرا ایک دن خلیفہ کے سامنے آیا تو کہنے لگا۔( اللہ تعالٰی امیر المومنین کو قرآن کے بارے میں صبرو جمیل کی توفیق بخشے)۔۔۔


    واثق !۔ اللہ تجھے سمجھے!۔ نالائق کیا قرآن کی وفات ہوگئی؟؟؟۔۔
    مشخرا!۔ امیر المومنین!۔ آخر کیا چارہ ہے ہر مخلوق پر موت واقع ہونے والی ہے اور قرآن بھی مخلوق ہے آج نہیں تو کل یہ حادثہ ہو کر رہے گا۔۔۔


    مسخرے کے اس جواب پر واثق سوچ میں ڈوب گیا تو مسخرے نے دوسرا سوال کر دیا اور بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا امیر المومنین آئندہ لوگ نماز تراویح میں کیا پڑھا کریں گے؟؟؟۔۔۔


    اس طنزیہ سوال نے واثق باللہ کو مسئلہ خلق قرآن کے بارے میں گہری سوچ پر مجبور کر دیا اب وہ اس مسئلہ پر متشدد نہ رہا تھا اور اپنے طور پر لاادریت کے مقام پر آگیا تھا کہ انہی دنوں ایک دوسرا واقعہ پیش آیا ایک نامعلوم بزرگ آیا اور اس نے خلیفہ سے اس مسئلہ پر ابن ابی داؤد سے مناظرہ اور بحث کرنے کی اجازت طلب کی خلیفہ نے اجازت دے دی تو اس سفید ریش بزرگ نے ابن ابی داؤد سے کہا ۔۔۔


    میں ایک سادہ سی بات کہتا ہوں جس بات کی طرف نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے، نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے، نہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے، نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تم اس کی طرف لوگوں کو بلاتے ہو اور پھر منوانے کے لئے زبردستی سے کام لیتے ہو اب دو ہی باتیں ہیں ایک یہ کہ ان جلیل القدر ہستیوں کو اس مسئلہ کا علم تھا لیکن انہوں نے سکوت فرمایا تو تمہیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہئے اور اگر تم کہو کہ ان کو علم نہ تھا تو گستاخ ابن گستاخ! ذرا سوچ جس بات کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کو نہ ہوا اس کا علم تمہیں کیسے ہو گیا؟؟؟۔۔۔


    ابن ابی داؤد سے اس کا کچھ جواب نہ بن پڑا واثق باللہ وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا وہ زبان سے بار بار یہ فقرہ دہراتا تھا جس بات کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور خلفائے راشدین کو نہ ہوا اس کا علم تجھکو کیسے ہوا؟؟؟۔۔۔ مجلس برخاست کر دی گئی اس نے اس بزرگ کو عزت و احترام سے رخصت کیا اور اس کے بعد حضرت امام پر سختیاں بند کر دیں۔۔۔


    غرض ایسے واقعات نے حالات کا رُخ بدل دیا ابن ابی داؤد لوگوں کی نظروں میں گر گیا پھر جب واثق باللہ کے بعد اس کا بھائی متوکل باللہ (٢٣٢ تا ٢٤٦ھ) تخت نشین ہوا تو اُس نے امام موصوف کو باعزت طور پر رہا کر دیا یہ معتزلہ عقائد سے بیزار اور متبع سنت خلیفہ تھا اس طرح اعتزال سے جب حکومت کی پشت پناہی ختم ہوئی جو اس کا آخری سہارا تھا تو یہ فتنہ اپنی موت آپ مرگیا۔۔۔

Working...
X