رسولِ مقبول ﷺ کی معاشی زندگی
تاریخِ عالم پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ذات ہی وہ بے نظیر ہستی ہے جس کی زندگی کا ایک ایک گوشہ تاریخ کی روشنی میں منور ہے۔ مہاتما بدھ کی زندگی اساطیر میں الجھی ہوئی ہے۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی زندگی کے بارے میں تورات و اناجیل کے غلط سلط، بے ربط واقعات کے علاوہ کچھ دستیاب نہیں اور ان واقعات کی غلطی قرآن کریم میں واضح کی گئی ہے۔ زر دشت کی شخصیت کا یہ حال ہے کہ ان کے تاریخی وجود ہی پر شک کیا جانے لگا ہے۔ اس کے برعکس نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا ایک لمحہ تاریخی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ نہ صرف نبی اکرم ﷺ کی زندگی محفوظ ہے بلکہ وہ لوگ جو ان کی زندگی کے عینی شاہد ہیں ان کی سیرت و کردار بھی صفحاتِ تاریخ پر ثبت ہے۔ اسپرنگر نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ اس فن میں دنیا کی دوسری کوئی قوم مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
نبی اکرم ﷺ کی سماجی زندگی میں ’معاش‘ ایک اہم پہلو ہے اور سیرت کی کتابوں میں بچپن سے لے کر رحلت تک کی معاشی مصروفیات کا تذکرہ موجود ہے۔ انہی تاریخی معلومات کا ترتیب سے پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم نبی اکرم ﷺ کی معاشی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پہلے جزیرۃ العرب کے جغرافیائی حالات پر سرسری نظر ڈال لینا ضروری ہے۔
جغرافیائی حالات
جزیرۃ العرب سے مراد وہ پورا جزیرہ نما ہے جس کے ایک طرف بحرِ احمر، دوسری طرف بحرِ روم، تیسری طرف فارس اور جنوب میں بحرِ عرب ہے۔ شمال میں کہ دستان کی پہاڑیاں اسے ترکی سے جدا کرتی ہیں اور مغرب میں نہر سویز افریقہ سے علیحدہ کرتی ہے۔
شمالاً جنوباً پورٹ سعید (العریش) سے عدن تک طول پندرہ سو میل اور شرقاً غرباً سویز سے فرات تک عرض چھ سو میل ہے۔ کل رقبہ تیرہ لاکھ مربع میل ہے۔ جزیرۃ العرب کا سارا علاقہ مسطح نہیں۔ کہیں کہیں کوہستانی سلسلے موجود ہیں۔ بڑا حصہ لق و دق صحرا ہے۔ شمالی حصے میں شام اور سعودی عرب کا درمیانی علاقہ وسیع ریگستان ہے جسے اہل عرب ’’بادیہ شام‘‘ اور غیر عرب ’’بادیہ عرب‘‘ کہتے ہیں جنوبی حصے میں یمن، عمان اور یمامہ کے درمیان دوسرا ناقابلِ بود و باش بے آب و گیاہ صحرا ہے جسے ’ربع الخالی‘ کہا جاتا ہے۔ اس صحرا کی ایک نوک بحرین اور نجد سے گزر کر صحرائے شام میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس صحرا کا مجموعی رقبہ اڑھائی لاکھ مربع میل ہے۔
’ربع الخالی‘ کے جنوبی حصے میں تھوڑی سی بارش سے کچھ ہریالی ہو جاتی ہے۔ خانہ بدوش قبیلوں کے اونٹوں کا گزارہ اسی ہریالی پر ہے اور یہ قبائل سبزے کی تلاش میں سارا سال گھومتے پھرتے ہیں۔ گستاولی بان لکھتا ہے
پیداوار اور زراعت
’’اس ملک کے خطوں کی آب و ہوا مختلف ہے۔ اس کی پیداوار بھی مختلف ہے۔ اس میں گرم اور معتدل دونوں ملکوں کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ عربستان کے شاداب خطوں میں تقریباً وہ سب میوہ جات اور غلّے موجود ہیں جو یورپ میں پیدا ہوتے ہیں۔ یمن کے خطے میں زراعت خوب ہوتی ہے لیکن کاشتکاروں کو محنتِ شاقہ کرنی پڑتی ہے کیونکہ ہمیشہ زمین کو سیراب کرنے کی ضرورت ہے اور اس کام کے لئے بارش کا پانی کنوؤں اور حوضوں میں جمع کیا جاتا ہے۔
یمن اپنی زرخیزی اور شادابی کی وجہ سے قدیم ایّام سے بیرونی لوگوں کی وجہ کا مرکز رہا ہے۔ بحرِ احمر کے ساتھ ساتھ عیسر کا علاقہ بھی سرسبز ہے یہاں کبھی کبھی بارش ہو جاتی ہے اور سبزہ اونٹوں کا چارہ بن جاتا ہے۔ نیز عیسر میں طویل کوہستانی سلسلے ’جبل السرات‘ پر کئی چراگاہیں موجود ہیں۔
معدنیات
قدیم اقوام میں عرب کی شہرت اس کی طلائی اور نقرئی معدنیات اور خوشبو ار اشیاء کی پیداوار کی وجہ سے تھی۔ یونانی مورخ ہیرو ڈوٹس نے اپنی تاریخ میں عرب کی اس خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔ تورات تو ملکِ عرب کے سونے، چاندی اور بخورات کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔ مثلاً
’’جدعون نے ان سے کہا کہ نہ میں تم پر حکومت کروں اور نہ میرا بیٹا بلکہ خداوند ہی تم پر حکومت کرے گا اور جدعون نے ان سے کہا کہ میں تم سے یہ عرض کرتا ہوں کہ تم میں سے ہر شخص اپنی لوٹ کی بالیاں مجھے دے دے (یہ لوگ اسماعیلی تھے اس لئے ان کے پاس سونے کی بالیاں تھیں) انہوں نے جواب دیا کہ ہم ان کو بڑی خوشی سے دیں گے۔ پس انہوں نے ایک چادر بچھائی اور ہر ایک نے اپنی لوٹ کی بالیاں اس پر ڈال دیں۔ ‘‘ مسلمانوں میں ابن حائک ہمدانی (م ۲۳۰ھ) نے اپنے جغرافیے میں معاونِ عرب کا کھوج لگایا ہے۔ علمائے یورپ میں برٹن (Burton) نے The Gold Mines of Midianمیں مدین کے طلائی معاون کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ عمان اور بحرین کے ساحلی علاقوں میں موتی نکالے جاتے ہیں ۔
صنعت و حرفت
شہری آبادی کی ضروریات کے پیشِ نظر صنعت و حرفت کا وجود ناگزیر تھا۔ اور عرب کے ہر حصے میں اعلیٰ یا ادنیٰ صنتی اشیاء تیار ہوتی تھیں۔ تاریخِ عرب میں صنعتی اشیاء پر کوئی خاص روشنی نہیں ملتی تاہم یمن کی پارچہ بافی اور جفت سازی مشہور تھی۔ چمڑا رنگنے کا فن (دباغت) عہدِ جاہلیت ہی سے تھا۔ یمن کی رنگی ہوئی کھالیں اس قدر مشہور تھیں کہ فارسی شعراء کے کلام میں بھی اس کی تلمیحات ملتی ہیں۔ کھالوں کے اعلیٰ ہونے کا سب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ستارہ سہیل جو یمن کے مقابل طلوع ہوتا ہے اس کی روشنی میں کھال کی دباغت بہت عمارہ ہوتی ہے۔
عربوں کا اہم پیشہ لوٹ مار تھا اور اس پیشے پر انہیں فخر تھا۔ اس پیشے کی وساطت سے شمشیر سازی اور نیزہ سازی کی طرف توجہ دی گئی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نگاہ میں وہ پیشہ عمدہ خیال کیا جاتا تھا جو انہیں جنگ و جدل میں معاون ثابت ہوتا تھا۔
سباکا پایہ تخت مآرب روئی اور کپڑے کے کاروبار کے لئے زمانۂ اسلام تک مشہور تھا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺنے یہاں کے باشندوں پر نقد جزیہ عاید کرنے کے بجائے کپڑا ہی مقرر کیا تھا۔ اسی طرح اہل بخران پر بھی حُلّوں کی صورت میں جزیہ عائد کیا گیا۔
تجارت
جزیرۃ العرب کے آباد علاقے تمام تر ملک کے تین اطراف بحری سواحل پر واقع ہیں۔ بحرین اور عمان خلیج فارس پر، حضر موت اور یمن بحرِ عرب پر اور مشرق میں حجاز و مدین بحرِ احمر پر واقع ہیں۔ زراعت اور صنعت پسماندہ ہونے کی وجہ سے تجارت کے کاروبار کو فروغ حاصل ہوا۔
عربوں کی تجارت پر تورات اور یونانی جغرافیہ دانوں کے بیانات سے کچھ روشنی پڑتی ہے۔ ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب تاجر دو ہزار برس قبل مسیح سے برابریہ خدمات انجام دے رہے تھے۔ عربوں کے تجارتی تعلقات ہندوستان، حبش، ایران، بابل، مصر اور یونان سے قائم تھے۔ یہ جملہ ممالک عرب کے ارد گرد اس طرح واقع ہیں کہ عرب اس دائرہ کا مرکز ہے۔ اندرونِ جزیرہ نما بھی تجارت ہوتی تھی۔ شام، عراق اور سعودی عرب ویمن کے درمیان بھی تبادلۂ اشیاء ہوتا تھا۔
عربوں کی تجارت کا سرمایہ عموماً تین چیزیں ہوتی تھیں۔
1.
کھانے کا مسالہ اور خوشبو دار اشیاء۔
2.
سونا، جواہرات اور لوہا۔
3.
چمڑا، کھالیں، زین پوش اور بھیڑ بکریاں۔
دو ہزار سال قبل مسیح جو عرب تاجر بارہا مصر جاتے تھے۔ ان کا سامانِ تجارت ان آیات سے واضح ہے۔
بلسان، صنوبر، لوبان اور دیگر خوشبو دار چیزیں۔
حضرت داؤد علیہ السلام ایک ہزار سال قبل مسیح میں سبا کا سونا مانگتے ہیں۔
۹۵۰
ق۔ م
میں حضرت سلیمانؑ کے دربار میں ملکۂ سبا جو تحفہ لائی وہ یہ تھا۔
’’خوشبو دار چیزیں، بہت سا سونا، بیش قیمت جواہر۔‘‘
حضرت سلیمانؑ کی کشتیاں یمن کی بندرگاہ ادفر سے سونا لاتی تھیں۔
دورِ جاہلیت میں قریش کی تجارت
خاندانِ قریش کے جدِ امجد قصّی نے تجارت کو دور دراز تک پھیالا۔ قیصر روم اور شاہ نجاشی سے قصی کے تجارتی روابط تھے۔ یمن اور باز نطینی سلطنت کے زیرِ اثر علاقوں میں بے روک ٹوک تجارت کی غرض سے ان بادشاہوں سے پروانے حاصل کئے۔ ابنِ حبیب کی روایت کے مطابق قصی کے چار بیٹے تھے اور ان میں سے تین تجارتی سفروں میں فوت ہوئے۔
قرآنِ کریم میں قریش کے تجارتی قافلوں اور سفروں کا ذِکر سورۂ قریش میں ’’رحلة الشتاء والصيف‘‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ قریش کی معاشی زندگی کا انحصار تین چیزوں پر تھا۔
1
. رحلۃ الشتاء والصیف
قریش جاڑوں میں جنوب یعنی یمن کی طرف کاروانِ تجارت لے کر جاتے تھے اور گرمیوں میں شام اور ایشیائے کو چک کا رخ کرتے تھے۔ ذی قعدہ کے مہینے میں قریش کے تجارتی قافلے واپس مکہ آجاتے تھے کیونکہ اگلے ماہ ذی الحجہ میں ان کا مکے میں موجود ہونا ضروری ہوتا تھا۔
2
عرب میں مختلف مقامات پر بازار لگتے تھے۔ تیرہ مقامات کے نام تاریخ میں موجود ہیں یعنی ’’دومۃ الجندل، مشقر، صحار، دبا، شجرہ، عدن، صنعاء، حضر موت، عکاظ، ذوالمجاز، منیٰ، خیبر یمامہ‘‘ مکہ کے قریب عکاظ کے موقتی بازار میں قریش اپنا مال فروخت کرتے تھے
3
محصولِ بدرقہ: چونکہ جزیرۃ العرب میں لوٹ مار عام تھی اس لئے نجد و حجاز سے گزرنے والے تاجر اپنی حفاظت کے لئے قریش کو محصول ادا کر کے ان سے حفاظتی دستہ حاصل کرتے تھے تاکہ قریش کے حلیف ان پر ڈاکہ نہ ڈالیں۔ کبھی دو چار قریشی نوجوان قافلے کے ساتھ ہو جاتے تھے اور کبھی قریشی نوجوان کے زیر سر کردگی غلاموں کو ساتھ بھیج دیا جاتا تھا۔
ولادتِ نبی اکرم ﷺ
واقعۂ فیل کے ۹۳ یا ۹۴ دن بعد نبی اکرم ﷺ قریش کے سردار عبد المطّلب کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت سے تین ماہ پہلے شام کے ایک سفر سے واپس آتے ہوئے مدینہ کے قریب آپ ﷺ کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ چھ سال کی عمر تھی کہ والدہ وفات پا گئیں۔ نو سال کی عمر میں دادا عبد المطّلب نے بھی داغِ مفارقت دے یا۔ عبد المطلّب ایک خوش حال قریشی سردار تھے۔ نبی اکرم ﷺ کو والد سے ورثے کے طور پر پانچ اونٹ، دو چار اونٹنیاں اور کچھ بکریاں ملی تھیں۔ ایک باندی اُمِ ایمن کا ذکر بھی آتا ہے جنہوں نے آپ ﷺ کو دودھ بھی پلایا تھا مگر یہ وراثت اتنی کم تھی کہ نو سال کی کفالت کے لئے یہ مال کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا۔
عبد المطلب کی وفات کے بعد آپ کی نگرانی شفیق مگر مفلوک الحال چچا کے سپرد ہوئی۔ ابو طالب کثیر العیال تھے اور آمدنی کا کوئی معقول ذریعہ نہ تھا۔ گزر بسر کا ذریعہ محض تجارت تھی مگر تجارت کے لئے مال شرط ہے اور ابو طالب بہت غریب تھے۔ دوسروں کا مال عرب کے میلوں میں لے جاتے تھے اور مزدوری پاتے تھے۔ اس قلیل آمدنی میں بمشکل گزر بسر ہوتی تھی۔ نبی اکریم ﷺ نے مفلوک الحال چچا کا ہاتھ بٹانے کی خاطر مزدوری پر اہل مکہ کی بکریاں چرانے کا کام کیا۔ ابو طالب کی دو چار بکریاں بھی ساتھ لے لیتے تھے۔
نوجوانی
نوجوانی میں مکہ کے تاجروں کے ہاں مزدوری اور کبھی کبھی نفع پر کام شروع کر دیا۔ مکہ میں رواج تھا کہ تاجر موسمِ حج میں مال خرید لیتے تھے اور کسی دیانتدار آدمی کے ہاتھ نجد، یمن او شام کی منڈیوں میں بھیج دیا کرتے تھے۔ اکثر مال لے جانے والے کی مزدوری پہلے ہی طے کر دی جاتی تھی اور نفع میں اس کا ہرگز کوئی حصہ نہ ہوتا تھا اور کبھی اُجرت کے ساتھ نفع سے بھی کچھ حصہ دے دیا جاتا تھا۔ نبی اکرم ﷺ، سہیل کا مال دوسرے ملکوں میں لے جاتے تھے۔
۲۵ سال کی عمر تک نبی اکرم ﷺ نے اجرت پر کام کیا اور اپنی دیانت و امانت اور فرض شناسی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ ’’صادق الامین‘‘ لقب پایا۔ بہت سے لوگ آپ ﷺ کو اپنا شریکِ تجارت بنانے کی خواہش کا اظہار کرنے لگے۔ آپ کا شعار تھا کہ جب اپنا اور دوسروں کا مال لے کر باہر جاتے تو واپسی پر سب سے پہلے شرکاء کو منافع کی ایک ایک کوڑی کا حساب دیتے۔ جن لوگوں نے آپ ﷺ کے ساتھ تجارت میں شراکت کی تھی۔ ان میں سے اکثر نے بعد میں اسلام قبول کر لیا۔ وہ ہمیشہ آپ کے حسنِ معاملت اور دیانتداری کی تعریف کرتے تھے۔ حضرت قیسؓ بن سائب محزومی ان لوگوں میں سے ہیں جو عہد جاہلیت میں آپ ﷺ کے شریکِ تجارت رہ چکے تھے۔ وہ آپ ﷺ کی نسبت کہا کرتے تھے کہ ’میں نے عہدِ جاہلیت میں آنحضرت ﷺ سے تجارتی ساجھا کیا تھا۔ دیانت داری اور راست بازی میں آپ ﷺ بے مثال تھےاور حساب کے معاملے میں ان کا مجھ سے کبھی جھگڑا نہ ہوا۔‘‘
تجارت سے جو کچھ حاصل ہوتا تھا اس سے بمشکل گزر بسر ہوتی تھی۔ ابو طالب نے خدیجۃ الکبریٰؓ اور آپ ﷺ کے نکاح کے موقع پر جو خطبہ پڑھا تھا۔ اس میں آپ ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ اور شرافتِ نسبی کا صریحاً ذکر کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ آپ ﷺ کے پاس مال و زر بالکل نہیں ہے۔ نیز ۲۵ برس کی عمر تک ناکتخدا رہنا بھی بے زری کی دلیل ہے جب کہ قریش کے سولہ سترہ برس کے نوجوانوں کی شادیاں ہو جاتی تھیں۔
تجارت کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ نے متعدّد سفر کیے۔ فلسطین، شام، یمن، بحرین، عمان اور غالباً حبشہ کا سفر بھی کیا تھا اور ان مقامات کی خوب سیر کی تھی۔ مدتوں بعد بھی ان علاقوں کے اہم شہروں کے نام، محل وقوع اور دیگر اہم تاریخی اور جغرافیائی معلومات آپ ﷺ کے ذہن میں محفوظ تھیں۔ نجاشی کے نام وہ مکتوب دیکھتے ہوئے جو آپ ﷺ نے جعفر طیارؓ کے تعارف کے لئے لکھا تھا یا نبوت کے پانچویں سال حبشہ کی جانب مہاجرین کو رخصت کرتے ہوئے جو الفاظ آپ ﷺ نے ادا کیے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ حبشہ اور دربارِ حبشہ سے خوف واقف تھے۔
عام الوفود میں آپ ﷺ کے پاس عرب کے اکثر مقامات کے وفود آئے تو ان میں عبد القیس کا وفد بھی تھا جو بحرین سے آیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے بحرین کے اہم مقامات کا نام لے لے کر ان کی حالت دریافت کی۔ اس پر ان لوگوں کو تعجب ہوا کہ آپ ﷺ ان مقامات سے کیسے واقف ہیں؟ لیکن آپ ﷺ نے یہ بتا کر ان کی حیرت دور کر دی کہ میں نے یہ مقامات خوب دیکھے ہیں۔
مکّی زندگی:
۱۵ سال قبل نبوی میں حضرت خدیجہؓ سے نکاح کی رسم ادا ہوئی تو نبی اکرم ﷺ ان کے گھر آگئے۔ نکاح کے بعد بھی تجارت کا شغل جاری رکھا مگر نزولِ وحی سے تقریباً پانچ سال پہلے کاروبارِ دنیا سے طبیعت اچاٹ ہو گئی تھی اور تجارت کی طرف رغبت پہلے سے بہت کم ہو گئی تھی۔ صرف حج کے موقع پر معمولی لین دین کرتے تھے جس سے آذوقۂ یات حاصل ہو جاتا تھا۔ باقی وقت یادِ الٰہی اور اصلاحِ معاشرہ میں گزرتے تھے۔ نزولِ وحی سے دو سال پہلے تو یہ حالت تھی کہ دو دو ہفتے کی غذا لے کر غارِ حرا میں جا بیٹھتے اور یادِ الٰہی میں مشغول و منہمک رہتے تھے۔
اعلانِ نبوت کے بعد تیرہ سال مکہ میں بسر کیے۔ مکی زندگی اگرچہ فقر و فاقہ کی زندگی نہ تھی لیکن خوشحالی کی بھی نہ تھی۔ مخالفین نے اسلام کی دعوت کو ابتداء میں نظر انداز کرنے کی کوشش کی کہ شائد یہ آواز خود بخود ہی دم توڑ دے گی مگر جب ان کا یہ خیال خام نکلا تو ترغیب و تحریص سے کام نکالنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اصولوں پر سمجھوتہ ناممکن تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے کہہ دیا کہ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر چاند اور بائیں ہاتھ پر سورج بھی لا کر رکھ دیں تو میں اپنے مقصدِ حیات سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ ترغیب و تحریص کی پیشکشیں ناکام ہو گئیں تو ظلم و تشدّد کی چکی پوری قوت سے چل پڑی۔ صحابہ کرام پر لرزہ خیز مظالم کئے گئے۔ اس دور میں مسلمانوں کے لئے بازار میں کاروبار کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا۔ آخر کفار نے سوشل بائیکاٹ کر دیا اور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کے چچا ابو طالب کو بھی محصور ہونا پڑا۔ تین سال تک یہ سوشل بائیکاٹ جاری رہا اور جب ختم ہوا تو نبی اکرم ﷺ کے پاس نہ سرمایہ تھا اور نہ پہلے سے تعلقات۔ کاروبار کی کوئی صورت نہ تھی۔ البتہ آپ ﷺ کے جانثار غلام زید موسمِ حج میں کچھ کام کر لیتے تھے۔
جب مشرکینِ مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو آپ ﷺ نے مدینہ منورّہ کو ہجرت کی۔ آپ ﷺ کے رفیقِ طریق حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس بہت سے دینار تھے۔ انہوں نے وہ اپنے ساتھ لئے مگر حضور ﷺ کے پاس ساتھ لے جانے کے لئے کوئی سرمایہ نہ تھا۔ حضرت ابو بکرؓ کی یہ رقم مسجدِ نبوی کی زمین خریدنے اور مہاجرین کی آباد کاری کے کام آئی۔ مکہ معظمہ میں آپ کی کوئی غیر منقولہ جائیداد بھی نہ تھی۔ البتہ حضرت خدیجۃؓ الکبریٰ کا ایک چھوٹا سا مکان تھا جس میں آپ ﷺ کا خاندان سکونت پذیر تھا اور ہجرت کے بعد بی بی زینبؓ رہائش پذیر تھیں۔
مدنی زندگی
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نبی اکرم ﷺ ایک سربراہِ ریاست کی حیثیت سے تھے۔ مدینہ جاتے ہی یہود کے ساتھ معاہدہ ہوا اور انہوں نے اختلافی معاملات میں آپ ﷺ کو حکم تسلیم کر لیا۔ مکہ میں نبی اکرم ﷺ کی مصروفیات کم تھیں مگر مدینہ میں آپ ﷺ حاکم تھے، سپہ سالار تھے اور عادل بھی۔ ان گو ناگوں مصروفیات میں کاروبار عملاً ناممکن تھا۔ آغاز میں بیت المال کی آمدنی ضروریات کے مقابلے میں اس درجہ کم تر تھی کہ صحابہؓ کرام تنگ دستی سے گزر بسر کرتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ اور ان کے اہل و عیال عسرت کی زندگی گزار رہے تھے اور بعض اوقات کئی کئی دن چولہے میں آگ تک نہ جلتی تھی اور ایسی ہی زندگی کئی دوسرے صحابہؓ کی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مدینہ منورہ میں قیامِ سلطنت پر مہاجرین کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر انصار کی جانثاری اور اولو العزمی نے جملہ مشکلات پر قابو پا لیا۔ مہاجرین کی سرگرمیاں دوبارہ عود کر آئیں۔ حضرت ابو بکرؓ کپڑے کی تجارت کرنے لگے۔ ’’سلخ‘‘ کے مقام پر ان کا کپڑے کا کارخانہ تھا۔ حضرت عمرؓ بھی تاجر تھے اور ان کی تجارت کا سلسلہ ایران تک پھیلا ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ بنو قینقاع کے بازار میں کھجوروں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ عبد الرحمانؓ بن عوف پنیر بیچتے تھے۔ حضرت زبیرؓ بھی کپڑے کے تاجر تھے اور شام سے ان کا بیوپار تھا۔ اسی طرح دیگر عام مہاجرین ’یبتغوا من فضل اللہ (الجمعه)‘ کے حکمِ قرآنی کے پیشِ نظر تجارت یا زراعت کو اپنائے ہوئے تھے۔
۶ھ میں خیبر اور فدک کی زرخیز اراضی مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔ بنی قریظہ اور بنی نضیر کے یہودی قبائل زرخیز اور سرسبز زمینیں چھوڑ کر گئے تھے اور ان کا ۵/۱ حصہ بیت المال میں آچکا تھا لیکن خراج اتنا کم تھا کہ ضروریاتِ صحابہؓ کے لئے ناکافیٔ محض تھا۔ نبی اکرم ﷺ کے پاس مہمان بکثرت آنے لگے تھے۔ عرب قبائل کے وفود کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ اصحابِ صُفّہ کا خرچ جدا تھا اس لئے قدرے خوشحالی کے باوجود نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں عسرت برقرار رہی۔
نبی اکرم ﷺ کی جو معمولی آمدنی تھی اس میں سے بھی غریبوں اور مسکینوں کی امداد فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے صحابہ کرامؓ کو فقر و فاقہ کی زندگی بار نہ تھی۔ وہ سب نبی اکرم ﷺ کو نمونہ بنائے ہوئے تھے۔ یہی وہ تربیت تھی جس کی وجہ سے وہ کبھی بھی بادشاہوں کی پرتکلف اور انواع و اقسام کے کھانوں سے مملو دعوتوں، بیش قیمت لباسوں اور شان دار مکانوں سے مرعوب نہ ہوئے۔ صحابہ کرامؓ روم و ایران کے درباروں میں فاتحانہ داخل ہوئے مگر درباروں کے ریشمی پردے، منقش قالین اور زر و جواہر سے لدے ہوئے تاج ان کی نگاہیں خیرہ نہ کر سے۔
ترکہ
عمرو بن الحارث جو امّ المومنین حضرت جویریہؓ کے بھائی ہیں۔ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے اپنے ترکہ میں صرف ہتھیار، اپنی سواری کا خچّر اور کچھ زمین کا ٹکڑا چھوڑا تھا اور وہ بھی صدقہ فرما گئے۔
مآخذ: ارض القرآن ج ۱۔۲ (سید سلیمان ندویؒ) (تفسیر سورۃ ایلاف مطبوعہ ’البلاغ‘ کراچی (جون ۶۸) عہدِ نبوی کا نظام حکمرانی، سیاسی وثیقہ جات۔ ڈاکٹر حمید اللہ)، تمدّنِ عرب (گستاؤلی بان، مترجم سید علی بلگرامی) رحمۃ للّعالمین (قاضی سلیمان منصور پوریؒ) سیرت النّبی اول و دوم شبلی نعمانیؒ) کتاب مقدس، فاران (سیرت نمبر)
(محدث:١٩٧٣رسول مقبولﷺ نمبر)