حضرت ابوہریرۃ
راضی اللہ
اور احناف
راضی اللہ
اور احناف
انتہائی اختصار کے ساتھ آج تک علمائے حنفیہ نے صحابہ کرام کے خلاف جو کچھ نازیبا اور گستاخانہ الفاظ استعمال کیے ہیں اور یہ الفاظ کی حدتک نہیں بلکہ انہی اصطلاحات پر اپنے قواعد و عقائد کی بنیاد بھی ڈالی ہے بیان کرنا اپنا فریضہ ہی نہیں بلکہ اس کی نقاب کشائی صحابہ کرام سے عین محبت کی دلیل ہے تاکہ عوام الناس کا عقیدہ ان مقلدین کےغلط نظریات اور تقلیدی افکار سے محفوظ رہے ذیل میں سطور میں اس کی کچھ مثالیں عرض کی جاتی ہیں تاکہ بات عیاں ہوجائے۔
سیدنا ابوہریرہ
کی شان میں
گستاخی
علماء حنفیہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارہ میں جو الفاظ اپنی کتابوں میں نقل کرتے ہیں اس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
(ابوهريرة وان كان معروفا باالعدالة والضبط ولكن لم يكن فقيها ولا مجتهدا) (الفصول فی الاصول3/136) (تقویم الادلۃ 180)
’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اگرچہ عادل و ضابط تھے لیکن فقیہ اور مجتہد نہ تھے۔نعوذبااللہ
یہاں تک نہیں بس کی بلکہ آگے دیکھیے کیا لکھتے ہیں
حنفی حضرات کہتے ہیں کہ ان کی جو بھی روایات قیاس (حنفی) کےخلاف ہوں گی ان کو متروک و مردود ٹھہرایا جائے گا۔جیساکہ مولانا عبدالعزیز البخاری الحنفی نسفی حنفی کاکی حنفی وغیرہ اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں -
(انما يقبل مالا يخالف القياس فاما خالفه فالقياس مقدم عليه) (کشف الاسرار 3/371)
’’کہ ان کی روایات اس وقت تک مقبول ہیں جب تک قیاس کے مخالف نہیں ہیں اگر قیاس کے مخالف آجائیں تو قیاس حنفی کو مقدم کیا جائے گا۔
انا للہ دوسروں کو کافر کافر کہنے والوں کے ہاں یہ ہے صحابی رسول کی عزت۔چور بھی بولے چورچور۔
ہائے افسوس وہ صحابی جو اپنے دورزریں میں افتاء کے منصب عظیم پر فائز تھے جیسا کہ
مولانا عبدالعزیز البخاری الحنفی نقل فرماتے ہیں ۔
’’وقد كان يفتي في زمان الصحابة وماكان يفتي في ذلك الزمان الافقية مجتهد ‘‘(کشف الاسرار علی اصول فخرالاسلام البزدوری2/383)
’’ کہ صحابہ کرام کے دور میں غیرفقیہ اورغیر مجتہد شخص کسی طرح فتوی صادر نہ کرسکتا تھا‘‘
پھر صحابہ کرام میں سے اگر کسی کو حفظ حدیث میں تقدیم کا اعزاز حاصل ہے تو یہی سیدنا ابوہریرۃ ہیں جیسا کہ امام سیوطی ؒ اوربقیی بن مخلدؒ نے اپنی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ آپ کو 15373 احادیث حفظ تھیں (تدریب الراوی 2/217۔مسند بقیی بن مخلد القرطبی 79)
حدیث رسول کے اس مکتبہ عظیمہ میں صرف ایک کلمہ ’’ غیرفقیہ‘‘ کہہ کر تشکیک پیدا کرنا نہ صرف مسلکی تعصب اور اصحاب رسول ﷺ کی گستاخی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ بالواسطہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کھلم کھلا اعلان جنگ کے مترادف بھی ہے ۔
ایک حیرت انگیزواقعہ
امام ذہبی نے اپنی کتاب سیراعلام النبلاء 2/618،619 میں باسند صحیح نقل کیا ہے
قاضی ابو طیف فرماتے ہیں کہ دمشق کی جامع مسجد المنصور میں ہم بیٹھے تھے کہ خراسانی نوجوان آیا جو مسلکا حنفی تھا ’’ مسئلہ مصراۃ ‘‘ کے بارے میں سوال کیا اور اس کی دلیل طلب کی مفتی نے حضرت ابوہریرہ کی حدیث سے استدلال کیا جو اس مسئلہ میں نص قطعی ہے اس حنفی سائل نے کہا کہ سیدنا ابوہریرۃ تو ’’ غیر فقیہ ‘‘ ہیں ۔حدیث میں وہ مقبول نہیں ہیں
(حالانکہ یہی روایت اس باب کےتحت امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح البخاری4/261 برقم الحدیث 21491 )میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی لائے ہیں جو احناف کے نزدیک فقیہ ہیں تو اسی حدیث کی بنیاد پر عبداللہ بن مسعود غیر فقیہ کیوں نہیں۔؟ )
جب سائل نے سیدنا ابوہریرۃ کے بارہ میں گستاخانہ الفاظ استعمال کیے تو اچأنک من جانب اللہ ایک اژدھا عذاب الہی کی صورت میں مسجد کی چھت سے نیچے گرا ۔تو لوگ انتہائی خوفزدہ ہوگئے اسی اثناء میں وہ حنفی سائل بھاگنے لگا تو سانپ نے اس کا پیچھا کیا مجلس میں سےایک آدمی نے کہا کہ اپنے گستاخانہ الفاظ سے توبہ کرو ’’فقال رجل تب تب فقال تبت‘‘ اس نے توبہ کی تو سانپ ایسا غائب ہوا کہ اثر تک نہ رہا۔اور اسی واقعہ کو مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی 1/29 میں اور حافظ ابوالفرج عبدالرحمان ابن الجوزی نے اپنی کتاب المنتظم فی تاریخ الامم والملوک 17/106 میں یوسف بن علی ابوالقاسم الزنجانی الفقیہ کے ترجمہ میں بھی نقل کیا ہے ۔
اس لئے ان متعصب حنفی حضرات کو غوروفکر کرنا چاہیے جو غیر فقیہ اور غیرمجتہد جیسے گستاخانہ الفاظ ان نفوس قدسیہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں جن کے بارہ میں اللہ رب العزت نے اپنے قرآن میں بار بار’’رضي الله عنهم ورضوا عنه‘‘ کے تمغہ جات نازل فرمائے ہیں ۔
اےارباب عقل و دانش ذرا غو ر تو کرو۔!
اصحاب رسول ﷺ کے بارہ میں فقیہ و غیر فقیہ ،معروف و مجہول جیسی ناروا تقسیمات کی ضرورت کیوں پڑی حالانکہ ایک ہی حدیث کے بارہ میں مہارت رکھنے والا انسان بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت میں فقیہ ہے تو ہزاروں حدیثوں کا حافظ غیر فقیہ کیوں۔۔۔۔؟؟
یہ تقسیمات محض مسلکی دفاع اور فقہ محمدیﷺ کے ارکان اساسیہ سے بے بصیرتی و ناآشنائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
پھر آسمان نبوت کے ستاروں میں سیدنا ابوہریرہ کو غیرفقیہ اور غیر مجتہد جیسے شاترانہ القابات سے نوازنا یقینا بے انصافی و بے اعتدالی اور تقلیدی زہر کا شاخسانہ ہے جبکہ ان کے بارہ میں نبی معظم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا
’’ اللهم حبب عبيدك هذا يعني اباهريرة وامه الي عبادك المؤمنين وحبب اليهم المؤمنين فما خلق مؤمن يسمع بي ولا يراني الا احبني ‘‘ (صحیح مسلم 2491)
’’ اے اللہ ۔! ابوہریرۃ اور اس کی والدہ کو اپنے مومن بندوں کے دامن محبت میں جگہ عنایت فرما اور مومنوں کو ان کے دامن محبت میں جگہ عنایت فرما ۔ابوہریرۃ فرماتے ہیں کہ کوئی مومن اس دنیا میں ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے مجھ کو سماعت یا بصارت کیا مگر وہ محبت نہ کرتا ہوں۔‘‘
اس حدیث پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ جو دل محبت ابوہریرۃ سے خالی اور عاری ہے بلکہ عداوت و دشمنی ،بغض و عناد،بے ادبی گستاخی سے لبریز و مملوء ہو وہ بے ایمان تو ہوسکتا ہے مگر ایماندار نہیں ۔پھر جس کا اٹھنا بیٹھنا،چلنا پھرنا،سونا جاگنا،اوڑھنا بچھونا حدیث رسول ﷺ ہو اس کو حدیث رسولﷺ میں بےبصیرتی و ناآشنائی اور عدم تفقہ بزعم قول مقلدین کس چیز کی غماز ہے ؟ آپ خود ہی اندازہ کرلیں۔!!
اس موقع پرمکتب ابی حنیفہ کے ایک فیض یافتہ فرزند کی فقاہت کا تذکرہ کرنا انتہائی قرین قیاس ہوگا تاکہ عوام الناس پر یہ بات واضح ہوجائے کہ صحابہ کرام کے بارہ میں غیرفقیہ ہونے کے فتاوے صادر کرنے والے مقلدین حضرات کی تقلیدانہ فقاہت کس قدر شرمناک ہے۔
مکتب ابی حنیفہ کی فقاہت
صحابہ کرام کو غیرفقیہ ،غیر مجتہد اور غیر مفتی کہنے والے مقلدین حضرات ذرا سوچیں کہ ان کے ذاتی مکتب کی فقاہت کا کیا حال ہے جن کو فقیہ زمان اور مجتہد فی المذہب سمجھتے ہیں لہذا اس موقع پر مکتب ابی حنیفہ کے فیص یافتہ تلمیذ رشید ابویوسف کی فقاہت کا ایک واقعہ ذکر کرنا انتہائی مناسب ہوگا تاکہ حنفی فقاہت کا معیار ہر مسلمان کو سمجھ آجائے ۔
مولانا محمود الحسن دیوبندی لکھتے ہیں ۔
’’ کہ ایک دفعہ قاضی ابویوسفؒ اور (غیر مقلد ) امام ابوحنیفہ ؒ ایک سفر میں اکھٹے ہوگئے نماز فجر کا پہلا وقت کسی وجہ سے فوت ہوگیا پس سورج طلوع ہونے کے بالکل قریب تھا ۔امام ابوحنیفہؒ نے ابویوسف ؒکو امام بنایا اور خود مقتدی بن گئے۔
ابویوسفؒ نے تعدیل ارکان ،آداب شرعی،سنن و واجبات وغیرہ کا لجاظ کیے بغیر فجر کی نماز پڑھائی ۔صرف اوپر نیچے ہوکر فرائض نماز ادا کیے تاکہ سورج طلوع نہ ہو ۔
پھر امام ابوحنیفہ ؒنے دوسرے وقت میں نفل کی نیت سے نماز دھرائی کیونکہ ابویوسفؒ کی اقتداء میں پڑھی جانیوالی نماز تو صرف اوپر نیچے ہی تھی پھر اس موقع پر امام ابوحنیفہ ؒ نے کہا آج کے دن ابویوسف فقیہ بن گئے۔‘‘ (تقریر الترمذی 11)
سوچیں جو شخص نماز کے واجبات ،نماز کی سنن ، تعدیل ارکان وغیرہ ترک کرکے نماز پڑھے بلکہ صرف اوپر نیچے ورزش ہی کرے تو وہ مکتب ابی حنیفہ کا سب سے بڑا فقیہ ہے ۔ہاں اس طرح کا فقیہ صحابہ کرام میں کوئی نہیں تھا کیونکہ ان کی نمازیں تو عین سنت نبوی ﷺ کے مطابق خشوع و خضوع ، آداب وحدود کی پابندی وغیرہ سے مترصع ہوتی تھی۔
لیکن نبوی مکتب میں تعلیم حاصل کرنے والے ،زندگی کے لیل و نہار رسول ہاشمی ﷺ کے ساتھ گزارنے والے ،آپﷺ کے ہزاروں فرامین کے اپنے سینوں میں نقش کرنے والے ، سفر و حضر میں آپ ﷺ کے ساتھ تکلیف برداشت کرنے والے اور نبی کائنات ﷺ کے فرمان میں زبرزیر پہ اپنا سب کچھ قربان کرنے والے مقدس اصحاب کو غیر فقیہ کہنا یقینا سوچی سمجھی سازش ہی نہیں بلکہ تقلیدی زہر کا عظیم ترشاخسانہ و کارنامہ بھی ہے
اگر فقاہت کا یہی معیار ہے تو اس میں ابویوسفؒ کو خاص کیا ضرورت ہے اس طرح کا فقیہ تو دنیا میں ہر جاہل ترین انسان بھی بن سکتا ہے بلکہ اگر یہ معیار عوام الناس کو پتہ چل جائے تو یقینا ہر کوئی فقیہ بننے کا متمنی ہوگا اس طرح کے واقعات فخریہ انداز میں اپنی کتابوں کی زینت بنانا اور صحابہ کے بارہ میں زبان درازیاں کرناکس قدر جسارت مندی ہے اللہ حق پہچاننے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین
Comment