Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عید کی نماز کے لیے سویرے جانا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عید کی نماز کے لیے سویرے جانا

    وقال عبد الله بن بسر إن كنا فرغنا في هذه الساعة،‏‏‏‏ وذلك حين التسبيح‏.‏

    اور عبداللہ بن بسر صحابی نے (ملک شام میں امام کے دیر سے نکلنے پر اعتراض کیا اور) فرمایا کہ ہم تو نماز سے اس وقت فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ یعنی جس وقت نفل نماز پڑھنا درست ہوتا ہے۔


    حدیث نمبر: 968

    حدثنا سليمان بن حرب،‏‏‏‏ قال حدثنا شعبة،‏‏‏‏ عن زبيد،‏‏‏‏ عن الشعبي،‏‏‏‏ عن البراء،‏‏‏‏ قال خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر قال ‏"‏ إن أول ما نبدأ به في يومنا هذا أن نصلي ثم نرجع فننحر،‏‏‏‏ فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا،‏‏‏‏ ومن ذبح قبل أن يصلي فإنما هو لحم عجله لأهله،‏‏‏‏ ليس من النسك في شىء ‏"‏‏.‏ فقام خالي أبو بردة بن نيار فقال يا رسول الله،‏‏‏‏ أنا ذبحت قبل أن أصلي وعندي جذعة خير من مسنة‏.‏ قال ‏"‏ اجعلها مكانها ـ أو قال اذبحها ـ ولن تجزي جذعة عن أحد بعدك ‏"‏‏.‏


    ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے زبید سے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن سب سے پہلے ہمیں نماز پڑھنی چاہیے پھر (خطبہ کے بعد) واپس آ کر قربانی کرنی چاہیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو یہ ایک ایسا گوشت ہو گا جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی سے تیار کر لیا ہے، یہ قربانی قطعا نہیں۔ اس پر میرے ماموں ابوبردہ بن نیار نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا۔ البتہ میرے پاس ایک سال کی ایک پٹھیا ہے جو دانت نکلی بکری سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بدلہ میں اسے سمجھ لویا یہ فرمایا کہ اسے ذبح کر لو اور تمہارے بعد یہ ایک سال کی پٹھیا کسی کے لیے کافی نہیں ہو گی۔



    صحیح بخاری
    کتاب العیدین



Working...
X