Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

قیامِ رمضان (تراویح)

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • قیامِ رمضان (تراویح)


    قیامِ رمضان
    (تراویح)

    تلاوتِ قرآن کی بہترین شکل اسے نماز میں پڑھنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی رمضان کی راتوں میں قیام فرمایا اور اس کی ترغیب بھی دی، اگرچہ اس کو فرض نہیں گردانا۔ عوام میں تراویح کو روزے کے لئے جو شرط سمجھا جاتاہے، یہ غلط خیال ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے:أن رسول الله کان يرغب الناس فی قيام رمضان من غيرأن يأٔمرھم بعزيمة(سنن نسائی وغیرہ)
    ’’رسول اللہ ﷺ لوگوں کورمضان کے قیام کی خوب خوب ترغیب دیا کرتے تھے، اگرچہ اس کو فرض نہیں قرار دیتے تھے۔‘‘
    حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے مروی ہے کہ أن رسول الله ذکر شهررمضان فقال: إن رمضان شهرافترض الله صيامه وانی سننت للمسلمين فيامه (سنن نسائی، ص ۲۵۰، ج۱،مکتبہ سلفیہ، لاہور ) ’’نبی کریم ا نے رمضان شریف کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا : اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے اور اس کی راتوں کا قیام میری سنت ہے۔‘‘

    تراویح کی و جہ تسمیہ:

    رمضان میں عشاء کی نماز کے بعد طلوعِ صبح صادق سے پہلے جونفلی نماز ادا کی جائے، اسے رسول اللہﷺ کے زمانے میں قیامِ رمضان سے تعبیر کیاجاتا تھا جو باجماعت تو عہد ِنبویؐ میں چند دن ہی پڑھی گئی مگر حضرت عمر فاروق ؓنے اس کا باجماعت بھی اہتمام فرما دیا۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ لمبی قراء ت ہونے کے باعث ہر چار رکعت کے بعد آرام کر لیا جاتاتھا۔شاید صحابہ ؓ ہی کے زمانے میں اس آرام کانام ’ترویحہ‘ رکھ لیا گیا، جس کی جمع تراویح ٹھہری۔اس تعبیر کی اصل، آثارِ صحابہؓ میں ملتی ہے۔ (دیکھئے سنن بیہقی، ص۴۹۷، ج۲… فتح الباری ،صفحہ ۳۱۵…قیام اللیل، ص۹۲، ص ۹۹)

    قیامِ مسنون:

    آنحضرت ﷺ تراویح مع وتر ۱۱؍رکعات پڑھا کرتے تھے،
    جس پر مندرجہ ذیل تین حدیثیں صاف طور پر دلالت کرتی ہیں۔
    حضرت عائشہ ؓ سے ایک اور جابرؓ سے دو…
    حديث عائشة:عن أبی سلمة أنه سال عائشةكيف کانت صلٰوة رسول الله فی رمضان فقالت ماکان يزيد فی رمضان ولا فی غيرہ علی إحدی عشرۃ ركعة (موطا ٔمحمد ، باب قیام رمضان) ’’ صحیحین اور موطا ٔاما م محمد میں حضرت ابوسلمہؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے آنحضرت ﷺ کے قیامِ رمضان کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا آپﷺ کا قیام رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔‘‘ یاد رہے کہ یہ روایت امام بخاریؒ وغیرہ محدثین نمازِ تراویح کے ذیل میں لائے ہیں :
    حديث جابر: عن جابر قال صلی رسول اللهﷺ فی رمضان ليلة ثمان رکعات والوتر فلما کان من قابلة اجتمعنا فی المسجد ورجونا أن يخرج إلينا فلم نزل فيه حتی أصبحنا قال إنی کرھت وخشيت أن يكتب عليكم الوتر ( فتح الباری، ص ۵۹۷، ج۱… قیام اللیل ص۹۰ للمروزی… معجم صغیر طبرانی، ص۱۰۸… میزان الاعتدال للذہبی ص ۲۸۰، ج۲، وقال سندہ وسط، وقال القاری الحنفی صح عنہ أنہ صلی لہم ثمان رکعات والوتر (مرقاۃ ص ۱۷۴، ج۲ طبع قدیم مصر) ’’آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ رات ہم لوگوں کوباجماعت آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں، بعد میں وتر پڑھے گئے۔ دوسری رات بھی ہم مسجد میں اکٹھے ہو کر آپؐ کا انتظار صبح تک کرتے رہے۔ صبح کو آپؐ تشریف لائے اور فرمایا: میں نے آج باجماعت تراویح پڑھنا اس لئے مناسب نہیں سمجھا تاکہ تم لوگوں پر رمضان کا قیام کہیں فرض نہ ہوجائے‘‘اس روایت کی سند اچھی ہے۔
    ملا علی قاری حنفیؒ نے اس روایت کو دو جگہ صحیح تسلیم فرمایا ہے۔ حديث جابر: جاء أبی بن کعب فی رمضان فقال يارسول الله! کان منی الليلة شئ قال: وماذاک يا أبی؟ قال تسوة داری قلن: إنا لانقرء القرآن فنصلی خلفک بصلاتک، فصليت بهن ثمان رکعات والوتر، فسکت عنه وکان شبه الرضا (رواہ ابویعلی وقال الہیثمی: سندہ حسن…آثار السنن ص۵ جلد۲ مصنفہ مولانا نیموی حنفی مرحوم … قیام اللیل ص۹۰، و سندہ وسط) ’’حضرت اُبی بن کعبؓ نے بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہو کر عرض کیا: حضورؐ آج رات ایک بات ہوگئی ہے۔ فرمایا اُبی! وہ کون سی؟ عرض کیا گھر کی عورتوں نے کہا ہم قرآن نہیں پڑھ سکتیں۔ ہم چاہتی ہیں کہ تمہارے پیچھے تراویح پڑھ لیں، تو میں نے انہیں آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھا دئیے۔ آپؐ نے سکوت فرمایا (یعنی اس بات کو پسند فرمایا) اس حدیث کی سند بھی حسن ہے۔‘‘
    ان تینوں روایتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عہد ِنبوی میں آٹھ تراویح ہی پڑھی گئی ہیں۔ خود آنحضرت ﷺ نے بھی آٹھ رکعت پڑھیں اور صحابہ ؓ نے بھی آٹھ ہی ادا کیں۔

    گیارہ رکعت کا فاروقی ؓ حکم:

    محمدبن يوسف عن السائب بن يزيد أنه قال أمر عمر بن الخطاب أبی بن کعب وتميما الداری أن يقوما للناس بإحدای عشرة ركعة (موطأ امام مالک… قیام اللیل مروزی، ص۹۱… شرح معانی الآثار ص۱۷۳، ج۱) ’’سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم داریؓ کو حکم دیا کہ وہ گیارہ رکعت مع وتر لوگوں کو پڑھایا کریں۔‘‘

    آئمہ کے مسالک:

    عام کتابوں میں یہ شہرت ہے کہ امام مالک، امام شافعی، امام احمد تینوں امام اور ان کے متبعین بیس رکعت ’مسنون‘ کے قائل ہیں لیکن ذرا مطالعہ کو وسعت دی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ائمہ اور محققین فقہا بیس رکعتوں کو استحباب ہی کا درجہ دیتے ہیں، سنت ِمؤکدہ کا نہیں، اس پر قرائن یہ ہیں:
    1 قیام اللیل میں ہے کہ امام احمدؒ سے سوال ہوا : کم من الركعة يصلي فی قيام رمضان؟ فقال: قد قيل فيه ألوان نحوا من أربعين ، إنما ھو تطوع ’’قیامِ رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں تو فرمایا اس میں تقریباً ۴۰؍ اقوال مروی ہیں۔ یہ تو ایک نفلی نمازہے۔‘‘
    2 امام شافعیؒ فرماتے ہیں : رايت الناس يقومون يمكة بثلاث وعشرين وبتسع وثلاثين وليس فی شيئ من ذلک ضيق (فتح الباری: ص۳۰۷، ج۲)
    ولأحد ينتهي إليه کأنه نافلة وإن أطالوا القيام وأقلّوا السجود فحسن وھو أحب إلی(قیام اللیل ص۹۲)
    ’’مکہ میں لوگ بیس پڑھتے ہیں اور مدینہ میں ۳۶، اس پر کوئی خاص پابندی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی حد بندی ہوسکتی ہے کیونکہ نفلی نماز ہی تو ہے۔ ہاں قیام لمبا کرکے رکعتیں کم کرلی جائیں تو مجھے زیادہ پسند ہے۔‘‘ (مثلاًطویل قیام کے ساتھ آٹھ رکعات)
    3 امام مالکؒ سے اگرچہ ۲۰،۳۹،۴۰ کا قول مروی ہے لیکن انہوں نے ترجیح آٹھ ہی کو دی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ آٹھ رکعت سنت ہیں باقی مستحب۔امام ابوبکر محمد بن الولید طرطوسی ؒ (ف ۵۲۰ھ) نے امام مالکؒ کا عمل نقل کیا ہے: والذي أخذ به في نفسی في قيام شهر رمضان الذي جمع عمر عليه الناس إحدی عشرۃ ركعة بالوتر وهي صلٰوة النبی ووجه ما اختارہ مالک اتفاق أهل المدينة (کتاب الحوادث والبدع: ص ۵۲، للطرطوسیؒ) وھو اختیارہ مالک لنفسہ واختارہ ابن العربی (عمدۃ القاری:ص۳۷۵، ج۵)
    ’’امام مالک نے فرمایا مجھے وہی طریقۂ عمل پسند ہے جس کا حضرت عمرؓ نے حکم فرمایا اور وہ وتر سمیت گیارہ رکعت ہے اور وہی رسول ﷺ کا قیامِ رمضان تھا اور اس پر اہل مدینہ کا متفقہ عمل تھا۔‘‘
    ابوبکر ابن العربی مالکی ؒ کا فیصلہ
    چھٹی صدی ہجری کے مالکی محدث قاضی ابوبکر ابن العربی ؒ کہتے ہیں کہ والصحيح أن يصلي إحدی عشرة ركعة صلٰوةالنبی وقيامه وأما غيرذلک من الأعداد فلا أصل له ولا حدّ فيه وإذا لم يكن بد من الحد فما کان النبی يصلي فوجب أن يقتدي بالنبیﷺ (عارضۃ الاحوذی : ۴؍ ۱۹، مصر) ’’صحیح گیارہ رکعت ہی ہیں، کیونکہ یہی آنحضرت ﷺ کی نماز تراویح تھی۔ باقی نفلوں کی کوئی حد بندی نہیں ہے پس ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺکی اقتدا کی جائے۔‘‘
    علامہ ابن ہمامؒ اور دوسرے فقہائے حنفیہ ؒ
    آٹھ رکعت تراویح والا مسئلہ اپنے اندر اس قدر دلیل کی طاقت رکھتا ہے کہ علامہ ابن ہمامؒ جیسے حنفی فاضل اس کے اعتراف پر مجبور ہوگئے حالانکہ علامہ کی تحریروں کو دیکھنے والے جانتے ہیں کہ علامہ کا حنفی مسلک کو مدلل بنانے میںکس قدر دخل ہے۔ اس مسئلہ پر آپ نے شرحِ ہدایہ میں بڑی تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے اور آخر میں فرمایا ہے : فتحصل من ھذا كله إن قيام رمضان سنة إحدی عشرة ركعة بالوترفيكون سنة وکونها عشرين سنة الخلفاء فيكون مستحبا وظاهر کلام المشائخ أن السنة عشرون ومقتضیٰ الدليل ما قلنا انتهاملخصًا (فتح القدیر :۱؍۴۶۸ ) ’’نتیجہ یہ ہے کہ گیارہ رکعت سنت ہیں اور بیس مستحب ہیں،اگرچہ فقہائِ حنفیہ بیس کو سنت ہی قرار دیتے ہیں لیکن دلیل کا تقاضا وہی ہے جو ہم نے کہا ہے۔‘‘ مصنف البحرالرائق (۲؍۷۲) نے بھی اسی مسلک کو پسند فرمایا ہے۔

    ۲۰ رکعت والی روایت:

    رہی ابن عباسؓ کی روایت: أنه ﷺکان يصلي فی رمضان عشرين ركعة (کہ آنحضرت ﷺ نے ۲۰ رکعت تراویح پڑھی تھیں) تو وہ روایت سخت کمزور ہے اس میں ایک راوی ابراہیم بن عثمان ہے جس کے ضعف پر سب متفق ہیں،پھر وہ حدیث صحیح (بخاری) کے بھی خلاف ہے۔ضعيف بأبی شيبة إبراهيم بن عثمان متفق علی ضعفه مع مخالفته للصحيح (فتح القدیر:۱؍۴۶۷)
    ایسے ہی ’عینی‘ شرح صحیح بخاری اور مرقاۃ میں ہے لہٰذا یہ دلیل نہیں بن سکتی۔

    تراویح باجماعت:

    یہ نماز آنحضرت ﷺنے توتین دن ہی باجماعت ادا فرمائی ہے۔ (صحیح بخاری وقیام اللیل للمروزی) ہاں حضرت فاروق اعظمؓ نے اس کے لئے باقاعدہ حکم نافذ فرمایا۔ اس لئے افضل یہی ہے کہ نمازِ تراویح باجماعت ہی ادا کی جائے۔ مندرجہ ذیل ایک مرفوع حدیث سے بھی اس پر علماء نے استدلال فرمایا ہے اور امام احمدؒ کا مسلک بھی یہی ہے أن النبی قال إذا قام مع الإمام حتی ينصرف، کتب له بقية ليلته قال أحمد: يقوم مع الناس حتی يوتر معهم ولا ينصرف حتی ينصرف الامام ’’آنحضرت ﷺنے فرمایا اگر (رمضان کی راتوں میںتراویح کی نماز باجماعت کی) تکمیل امام کے ساتھ کی جائے تو پوری رات کے قیام کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔اسی بنا پر امام احمدؒ فرماتے تھے کہ دیر تک امام کے ساتھ تراویح ادا کرنا بہتر ہے۔‘‘ (قیام اللیل للمروزی ص۱۱)

    رکعاتِ تراویح کے درمیان میں ذکر، اذکار:

    رکعتوں کے درمیان کوئی خاص ذکررسول اللہ ا اور صحابہؓ سے مروی نہیں اور جو عام طور پر مشہور ہے (یعنی سبحان ذي الجبروت والملکوت … الخ) اس کا کوئی اصل نہیں۔ البتہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے ایک ذکرمنقول ہے جسے وہ تراویح کے اثنا میں پڑھا کرتے تھے۔چونکہ یہ معلوم ہے کہ حضرت امام ؒ کے معمولات و فتاویٰ عام طور پرکسی حدیث و اثر پر ہی مبنی ہوتے ہیں،اس لئے اگر تراویح کے درمیانی عرصہ میں وہ ذکر کر لیا جائے تو درست ہے۔حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں: (بدائع الفوائد ، ص۱۱۰ جلد۴)
    رأيت أحمد يقعد بين التراويح ويردد ھذا الکلام: ’’لا اله الا الله وحدہ لا شريك له استغفرالله الذی لا اله الاھو‘‘ ’’امام احمدؒ تراویح کے درمیان بیٹھتے اور یہ کلمات باربار پڑھاکرتے تھے ’’لاَ اِلهَ اِلاَّ الله وَحْدَہٗ لَاشَرِيك لهٗاَسْتَغْفِرُاللهَ الَّذِیْ لَا اِله اِلاَّ ھُوَ…‘
    Last edited by lovelyalltime; 6 August 2012, 05:05.
Working...
X