Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عربی و عجمی۔۔۔ منکرین حدیث کی ائمہ حدیث پر معاندانہ و جاہلانہ پھبتی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عربی و عجمی۔۔۔ منکرین حدیث کی ائمہ حدیث پر معاندانہ و جاہلانہ پھبتی



    عربی و عجمی۔۔۔ منکرین حدیث کی ائمہ حدیث پر معاندانہ و جاہلانہ پھبتی


    منکرین حدیث محدثین پر عجمی ہو نے کی بنا پر پھبتی کستے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اسلام میں درجہ و مرتبہ کی بنیاد عربی یا عجمی ہونا نہیں بلکہ تقویٰ ہے ایمان و عمل صالح ہے، اگر ایما ن و تقویٰ حبشہ کے بلال و نجاشی میں آ جائے، روم کے صہیب، ایران (فارس) کے سلمان میں آ جائے تو یہ عجمی مکہ کے ابوجہل، ابو لہب، امیہ، عتبہ، شیبہ، ولید اور مدینہ کے عبداللہ بن ابی جیسے سینکڑوں عربوں، قریشیوں، ہاشمیوں، امویوں سے افضل ہیں۔ اسلام میں ایمان و عمل صالح کی عزت و عظمت ہے، عربی و عجمی کی نہیں۔ گورے اور کالے کی نہیں۔ قوم و قبیلہ پہچان کا ذریعہ ہیں، عظمت و فضیلت کا نہیں۔ منکرین حدیث کو بخارا کے امام محمد بن اسماعیل بخاری (194۔256ھ) نیشاپوری خراسان کے امام مسلم بن الحجاج القشیری ( 204۔ 261ھ)، ماوراء النہر کے امام ابو عیسی ٰ محمد بن عیسی ٰالترمذی ولادت 209ھ وفات 279ھ، ابوداؤد سلیمان بن اشعث لجستانی ولادت 202ھ، وفات 275ھ، احمد بن شعیب نسائی ولادت 215ھ وفات 303ھ، ابو عبداللہ محمد بن یزید قزوینی ولادت 209ھ وفا ت 273ھ، امام عظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی ولادت 80ھ و فات 150ھ، امام عبدالرزاق بن ھمام ولادت 126ھ وفات 211ھ، امام مالک ابن انس بن مالک ولادت 93ھ، وفات 179ھ، امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم 182ھ، امام محمد بن حسن شیبانی ولادت 132ھ وفات 189ھ، امام احمد عمرو بن عبدالخالق بزارم 292ھ، امام محمد بن عمر واقدی م 207ھ، حافظ عبداللہ بن زبیر حمیدی م 219ھ، امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ م 235ھ پر اعتراض ہے کہ اکثر محدثین عجمی ہیں۔ لہذا تدوین حدیث عجمی سازش ہے۔
    اس کا جواب یہ ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت کا دار و مدار تقویٰ، عمل و کردار پر ہے، عربی و عجمی ہونے پر نہیں۔ کوئی حبش سے، روم سے، مصر سے، ایران سے، عراق سے، شام سے آ کر مسلمان ہوگیا، اسلام اور اہل اسلام کی خدمت کے اعزاز سے مشرف ہو گیا اور کوئی مکہ و مدینہ میں رہ کر عربی، قریشی اور نہ جانے کیا کیا ہو کر بھی دولت ایمان سے محروم رہا۔ عربی کی عربیت اسے ایمان سے ہمکنار نہ کر سکی اور عجمی کی عجمیت اس کے خلوص و ایمان میں رکاوٹ نہ بن سکی، اللہ کی رحمت عربی و عجمی کا لحاظ کئے بغیر نوازتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سرکار کے حکم و اجازت سے خود صحابہ کرام لکھا کرتے تھے آنے والوں نے وہی سینوں اور صحیفوں میں جمع شدہ ذخیرہ مدون و مرتب کر کے یکجا کر دیا۔

    چند دیگر غلط فہمیاں جو منظم طریقہ سے پھیلائی جاتی ہیں


    منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حدیث لکھنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اپنی بات کے ثبوت کے طور پر یہ روایت پیش کرتے ہیں۔ صحیح مسلم کتاب العلم میں زید بن اسلم نے عطاء بن یسار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’میری احادیث نہ لکھو جس نے قرآن کے علاوہ کچھ لکھا ہو وہ اسے مٹا دے۔‘‘
    مسلم، الصحيح، 4 : 2298، رقم : 3004

    یہاں منکرین حدیث نے دو غلطیاں کیں :


    نمبر ا : کتاب العلم کا حوالہ دیا حالانکہ یہ روایت باب التثبت فی الحدیث و حکم کتابۃ العلم میں ہے۔
    نمبر 2 : عربی کے اصل کلمات لکھے نہ پوری روایت نقل کی تاکہ اس منکر کا پول نہ کھلے۔ پوری حدیث پاک یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    ’لا تکتبوا عنی و من کتب عنی غير القرآن فليمحه وحدثوا عنی و لا حرج و من کذب علی متعمدا فليتبوا مقعده من النار‘
    مسلم، الصحيح، 4 : 2298، رقم : 3004
    ’میری طرف سے کچھ نہ لکھو اور جس نے میری طرف سے قرآن کے علاوہ لکھا ہو، اسے مٹا دے اور میری طرف سے حدیث بیان کرو، حرج نہیں اور جو کوئی مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکا نہ جہنم میں بنالے‘
    امام نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں۔
    1. لکھنے سے منع اس شخص کو کیا گیا جسے اپنے حا فظہ پر مکمل اعتماد ہو اور لکھنے کی صورت میں ڈر ہو کہ کہیں لکھنے پر ہی اعتماد نہ کر لے اور جس کو حافظہ پر اعتماد نہ ہو اسے لکھنے کا حکم فرمایا جیسے فرمایا : ابو شاہ کو میر ی حدیث لکھ دو۔
    2. اور حدیث صحیفہ علی۔
    3. اور عمرو بن حزم کو فرائض، سنن اور دیات کے بارے میں احادیث لکھ کر دیں۔
    4. اور حدیث کتاب الصدقۃ اور زکوٰۃ کے نصابات جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بحرین کا عامل بنا کر بھیجتے وقت لکھ کر دیئے۔
    5. اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد تھیں کہ میں لکھتا نہ تھا وہ لکھ لیا کرتے تھے، پس جب حدیث و قرآن کے خلط ملط ہونے کا خطرہ محسوس فرمایا، حدیث لکھنے سے منع فرما دیا جب یہ خطرہ تعلیم و تر بیت کے بعد ختم ہو گیا تو حدیث لکھنے کی اجازت ہی نہیں، حکم بھی دیدیا۔ وقت و حالات کے بدلنے سے بعض احکام بدل جاتے ہیں۔‘‘

    نووی، شرح صحيح مسلم، 2 : 414
Working...
X