Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

وحدت شہود

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • وحدت شہود

    وحدت شہود
    يسم الله الرحمن الرحيم

    شرک پھیلنے کا بہت بڑا
    سبب " وحدت شہود'' کا نظریہ بھی ہے ـ
    اس کی حقیقت سید رشید رضا مصری رحمہ اللہ نے تفسیر المنار جلد 10 صفحہ 239 میں یوں بیان فرمائی ہے کہ
    ''وحدت شہود کو عام لوگ ''فنا فی اللہ بھی کہتے ہیں اور اس کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں کہ بندہ اپنی ذات کے شہود کو فراموش کردے اور اپنے عزم و احساس سے غافل ہو جائے اور یہ سمجھنے لگے کہ وہ صفات خداوندی میں سے کسی ایک صفت کا مظہر ہے اور اس کے ناموں میں سے کسی نام کی جلوہ گاہ ہے اور امر الہی کے سامنے بے بس ہو کر رہ جائے ـ
    اور جب کئی ابتدائی منزلیں اور دشوار گزار مرحلے طے کرنے کے بعد کسی شخص کو یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے تو دائمی اور پائدار نہیں ہوتا بلکہ یہ سعادت کبھی کبھی اور گاہے بگاہے ایک آدھ لمحہ کے لیے حاصل ہوتی ہے اس مرتبہ کا نام '' وحدت شہود '' ہے
    اور وحدت شہود کے بعد '' وحدت وجود'' کی نوبت آتی ہے یعنی بنے کا وجود بلکل خدا کو وجود بن جاتا ہے اور خدا کا وجود بلکل بند ے کا وجود بن جاتا ہے اور ببعض دفعہ وحدت الوجود کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور اس حالت میں نہ بندہ باقی رہتا ہے اور نہ رب ہوتا ہے اور بظاہر ایک ایسی چیز بن جاتی ہے جس کے مختلف مظاہر اور اطوار ہوتے ہیں اس کی مثال اس طرح ہے جس طرح پانی کبھی برف جامد اور کبھی آب رواں اور کبھی بھاپ اور کبھی اپنی ترکیبی عناصر ہائی ڈروجن اور آکسیجن کی تحلیل ہو کر نظروں سے غائب ہو جاتا ہے ـ
    یہ ایک باطل مادی نظریہ ہے جو ہندو برہمنوں اور بدھ مت کے جوگیوں کے تخیلات سے مستعار لیا گیا ہے اس عقیدے کے اختیار کرنے کے بعد انسان کافر اور تمام انبیاء کی ملتوں سے خارج ہو جاتا ہے اور نہایت افسوس ے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے مسلمان کہلانے والے صوفی بھی
    اس فتنے میں مبتلا ہو گئے ہیں ـ ''
    تفسیر المنار

    وحدت شہود کے قائلین اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ


    "میں نے اپنے بندے پر جو چیز فرض کی ہے اس سے بڑھ کر کوئی چیز بھی میرے قرب کا ذریعہ نہیں ہو سکتی اور میرا بندہ میرا قرب حاصل کرنے کے لیے نفلی عبادات حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوشش کرتا ہے تو میں اسے اپنی آغوش میں لے لیتا ہوں اور جب اس سے محبت کرتا ہوں اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر مجھ سے سوال کرے تو اسے دیتا ہوں اور اگر وہ پناہ مانگے تو اسے پناہ دیتا ہوں ـ''
    مختصر بخاری ( مشکوٰتہ المصابیح باب ذکر اللہ عزوجل صفحہ 197

    اس روایت کو بعض حضرات نے ''وحدت شہود '' کی دلیل قرار دیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ اولیائے کرام جب (فنای فی اللہ ) کے مقام کو پہنچتے ہیں تو ان میں خداوندی کمالات پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ دفن ہونے کے بعد بھی مخلوقات کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتے ہیں ان کے کان ، آنکھیں ، ہاتھ ، پاؤں بلکہ پورا جسم اگرچہ انسانی نظر آتا ہے لیکن درحقیقت یہ اعضاء اور جسم ''خدا'' بن گیا ہوتا ہے اور نظام عالم میں اپنی مرضی سے تصرف کرتا ہے ـ
    اس کا جواب یہ ہے کہ؛
    ''یہ دعوی اور دلیل دونوں باطل ہیں اس استللال نے اسلامی تعلیمات اور توحید خداوندی کا چہرہ مسخ کر دیا ہے کیونکہ ذات خداوندی کا کسی مخلوق کا جسم یا جسم کا حصہ بن جانا شرعا اور عقلا دونوں لحاظ سے محال ہے اس کی یہ وجوہات ہیں؛

    اول : اس سے ذات باری تعالٰی محل حوادث بن کے رہ جاتی ہے اور اس میں استحالہ ، تحلیل
    اور تغیر و تبدیل لازم آتا ہے اور یہ عقلا محال ہے ـ

    دوم : اگر اولیائے کرام کے دونوں آنکھیں ، دونوں کان ، دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کو خدا تسلیم کیا جائے تو ہر ایک ولی میں خدا کی کم از کم آٹھ حصوں میں تقسیم ہو جائے گی اور خدا کی ذات کا تقسیم ہونا محال ہے ـ

    سوم :: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ، اہل بیت رضی اللہ عنہم اور چودہ سو سال میں شہادت پانے والے لاکھوں جانباز سب کے سب اولیاء اللہ ہیں اور اگر اولیائے اللہ کرام کے جسم اور جسمانی اعضاء خدا بن جائیں (نعوذ باللہ ) تو خدا کے اتنے حصے اور ٹکڑے ہو جائیں کہ ان کا شمار کرنا بھی محال ہو جائے لہذا یہ عقیدہ باطل اور کفریہ ہے ـ

    چہارم :: اگراولیائے اللہ کے اعضاء کو خدا تسلیم کیا جائے تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا کیا جواب ہو گا کیونکہ اسلامی تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دشمن نے آپ کو شہید کرنے کے بعد آپ کا ناک ، کان اور جگر مبارک کاٹ کر گلے کا ہار بنایا
    اور دانتوں سے چبایا اور کھانے کی کوشش کی ـ
    اور جنگ موتہ کے علمبردار حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا دشمن نے وہ ہاتھ کاٹ دیا تھا جس میں پرچم نبوی ﷺ کو پکڑا ہو ا تھا اوراس بہادر ولی اللہ نے وہ پرچم دوسرے ہاتھ میں پکڑ کر بلند کیا کیا اور دشمن نے دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا اور پھر اس سچے ولی اللہ نے تیسری بار اس پرچم کو منہ سے پکڑ کر بلند کیا اور دشمن نے گردن بھی اڑا دی اور آپ کو شہید کر دیا ، اگر ہر ولی اللہ کے اعضاء کو خدا تسلیم کیا جائے تو حمزہ ،جعفر رضی اللہ عنہم اور دیگر صاحبہ کرام رضی اللہ عنہم کے اعضاء کٹ جانے سے خدا کا کٹ جانا لازم آئے گا اور یہ بھی عقلا محال ہے

    پنجم :: حضرت موسی علیہ السلام نے جب کوہ طور پر جانے کا ارادہ کیا تو اپنی جگہ حضرت ہارون علیہ السلام کو خلیفہ بنایا لیکن بنی اسرائیل ہاروں علیہ السلام کے منع کرنے کے باوجود شرک کرنے لگے ، اور جب موسی علیہ السلام واپس تشریف لائے تو غضبناک ہو کر ہارون علیہ السلام کے
    سر مبارک اور داڑھی مبارک کے بال پکڑے اور کھینچے ـ
    اگر اولیائے اللہ کے اعضاء کو خدا تسلیم کیا جائے
    تو اس واقعہ میں خدا کا خدا پر ناراض ہونا ، خدا کا خدا کو پکڑنا اور خدا کا خدا کو سزا دینا لازم آئے گا
    اور یہ استلزام قطعی طور سے باطل ہے ـ

    ششم
    ::
    حدیث قدسی کا آخری حصہ اس استدلال کو باطل ٹھیراتا ہے
    اور اس کی تکذیب کرتا ہے آخری حصہ کے الفاظ یہ ہیں ـ ـ ـ ـ ـ ـ
    ''اگر یہ بندہ مجھ سے سوال کرے تو اسے پورا کروں گا ــــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ اور اگر پناہ مانگے تو پناہ دوں گا ''
    گذارش یہ ہے کہ جب یہ بندہ اور اسکے اعضاء خٰد ا بن چکے ہیں تو پھر اس نئے تیار ہونے والے خدا کو سوال کرنے اور پناہ مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؛ کیا خدا کوبھی کوئی ضرورت ہوتی ہے اور مشکل پیش آتی ہے ؟ اور کیا خدا ، خدا سے سوال کرتا اور پناہ مانگتا ہے ـــ سبحنه و تعالٰی عما يشركون ـ

    حدیث پاک کا صحیح مفہوم!۔
    اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مردمومن کے دل میں کامل ایمان پیدا ہوتا جاتا ہے تو اس کے جسم اور جسمانی اعضاء سے وہ کام ظاہر ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالٰی پسند کرتا ہے یعنی اللہ پاک اس کا حافظ اور نگہبان ہو جاتا ہے جس طرح یوسف علیہ السلام کا ارشاد ہے ::؛
    رب السجن احب الى مما يدعوننى اليه
    ائے میرے رب جن گناہوں کی طرف مجھے دعوت دی دیتی ہیں اس سے جیل میں جانا میرے لئے
    جیل جانا کہیں زیادہ
    پسندیدہ ہے ـ
Working...
X