Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کا قصہ۔ الشیخ زب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کا قصہ۔ الشیخ زب


    سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کا قصہ۔ الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ



    سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کا قصہ

    سوال:مجھے کافی عرصے سے حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ سے متعلق کچھ سوالات کے جواب معلوم کرنا تھے مہربانی فرماکر رہنمائی فرمائیں۔
    1-جنگِ احد میں آپﷺ کے دندان مبارک شہید ہونے پر آپ یعنی اویس قرنی نے اپنے تمام دانت توڑ لیے کیایہ درست ہے۔
    کیا ایسا کرنا اور خود کو نقصان پہنچانا جائز ہے؟
    2۔ نبی اکرم ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنھم خاص طور سے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو فرمایا کہ آپ ان سے دعا کروایا کریں؟ کیا یہ درست ہے؟جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما کا رتبہ ان سے بلند ہے اور ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہے ۔۔۔۔۔
    3۔ آپ رحمہ اللہ اپنے والدین کی خدمت میں مشغولیت کے باعث نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے ۔ والدین کی خدمت اپنی جگہ درست۔ میں نے کہیں پڑھا تھا غالباً یوں کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کی اولاد اس کے ماںباپ سے زیادہ اس کو عزیز نہ ہو جاؤں۔ مہربانی فرماکر اس کی بھی تصحیح فرما دیجئے اور جواب بھی تحریر فرمائیے۔
    (لیاقت علی ، لاہور پلاسٹک موچی بازار راولپنڈی)
    جواب:1۔ یہ روایت کہ سیدنا اویس بن عامر القرنی رحمہ اللہ نے اپنے تمام دانت توڑ دئیے تھے ، بے اصل اور من گھڑت روایت ہے جو کہ جاہل عوام میں مشہور ہو گئی ہے ۔ محدثین کی کتابوں میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے ۔
    2۔ سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کےبارے میں علمائے کرام میں اختلاف تھا لیکن صحیح و محقق بات یہی ہے کہ ان کا وجود ثابت ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
    (ان خیرالتابعین رجل یقال لہ أویس، ولہ والدۃ ، وکان بہ بیاض، فمروہ فلیستغفرلکم)
    (صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل اویس قرنی ، ح۲۵۴۲وترقیم دارالسلام:۶۴۹۱)
    اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اویس رحمہ اللہ مستجاب الدعوات تھے یعنی اللہ تعالی آپ کی دعا خاص طور پر قبول فرماتا تھا ۔
    صحیح مسلم کی دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر نہ ہو سکے جس میں آپﷺ کی رضامندی شامل تھی۔
    روایات اویس میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کوئی ذکر نہیں تاہم سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا ان سے استغفار ( دعا کی درخواست) کرانا مذکور ہے ۔
    (صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: ۶۴۹۲ )
    کسی افضل شخص کا مفضول شخص سے دعا کروانا توہین کی بات نہیں ہوتی۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے افضل تھے مگر ان سے آپ کا (استسقاءکی ) دعا کروانا ثابت ہے۔ دیکھیئے صحیح بخاری (۱۰۱۰، ۳۷۱۰)
    تنبیہ بلیغ : سیدنا اویس رحمہ اللہ بذات خود دوسرے مفضول اور غیر افضل افراد سے دعا کرواتے تھے ۔ دیکھیئے صحیح مسلم ( ح۶۴۹۲ترقیم دارالسلام) لہٰذا اس قسم کی باتوں سے پر یشان نہیں ہونا چاہیئے۔
    3۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ نبی کریم ﷺ سے اپنے ماںباپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ مبتش نہ کرے۔ (دیکھیئے صحیح بخاری: ۱۵ و صحیح مسلم: ۴۴)
    لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپﷺ کے زمانے میں اسلام لانے والے تمام تابعین پر یہ فرض و واجب تھا کہ وہ ضرور آپﷺ کی ملاقات کرتے اگرچہ ان کے پاس حاضر نہ ہو سکنے کا شرعی عذر بھی تھا ۔ دوسرے یہ کہ راقم الحروف نے حدیث کی روشنی میں یہ عرض کردیا ہے کہ اویس رحمہ اللہ کا مدینہ منورہ تشریف نہ لانا آپﷺ کی اجازت سے تھا ورنہ آپﷺ انھیں حکم دیتے کہ مدینہ حاضر ہو جاؤ۔واللہ اعلم

    تنبیہ:
    اویس قرنی رحمہ اللہ والی روایت امام مسلم اور جمہور محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔ امام بخاری کا اس پر جرح کرنا صحیح نہیں ہے۔
    (11؍ ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ) [الحدیث:۲۲]
    (فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، تالیف: حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ج۲،ص۲۷۸)



Working...
X