بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دودھ فروش خاتون کے ساتھ قصہ
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دودھ فروش خاتون کے ساتھ قصہ
السلام علیکم!۔
دوستو!۔
بیٹی نے کہا!۔ امی جان!۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ امیرالمومنین نے آج کس قدر تاکید فرمائی ہے؟؟؟۔۔۔
ماں نے کہا انہوں نے کس بات کی تاکید فرمائی ہے بیٹی؟؟؟۔۔۔ ب
یٹی نے کہا انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا اور اس منادی نے یہ اعلان کیا کہ دودھ میں پانی نہ ملایا جائے ملاوٹ نہ کی جائے۔۔۔
ماں نے کہا اے بیٹی اٹھ اور دودھ میں پانی ملادے تو ایسی جگہ ہے جہاں تجھے نہ عمر رضی اللہ عنہ دیکھ پائیں گے نہ اُن کا منادی۔۔۔
بچی نے اپنی ماں سے کہا!۔ امی جان میں ایسی نہیں ہوں کہ جلوت میں اُن کی اطاعت کروں اور خلوت میں اُن کی نافرمانی۔۔۔
عمر رضی اللہ عنہ یہ سب کچھ سُن رہے تھے فرمایا!۔
اے اسلم اس دروازے کو خوب یاد رکھو اور اس جگہ کو پہچان لو پھر آپ اپنے گشت کے لئے چل دیئے جب صبح ہوئی تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔
اے اسلم!۔ اس مقام پر جاؤ اور دیکھو کہنے والی کون تھی اور کس سے کہہ رہی تھی اور یہ کہ کیا ان کے ہاں کوئی مرد ہے؟؟؟۔۔۔
اسلم کہتے ہیں میں اس جگہ پہنچا تو لڑکی غیرشادی شدہ تھی اور یہ اُس کی ماں تھی جس کا شوہر نہ تھا (وہ بیوہ یا مطلقہ تھی) میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہیں اس کی خبردی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کو بلا بھیجا اور انہیں اکٹھا کیا اور کہا تم میں سے کوئی (نیک) عورت سے نکاح کا خواہشمند ہے؟؟؟۔۔۔
(وہ عورت اس قدر نیک ہے کہ) اگر تمہارے والد کو نکاح کی ضرورت ہوتی تو تم میں سے کوئی اس لڑکی کی طرف سبقت نہ لے جاتا تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔
میری تو بیوی ہے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے بھی یہی فرمایا۔۔۔ کہ میری بیوی ہے عاصم نے کہا اے ابا جان!۔ میری بیوی نہیں پس میری شادی کروادیں عمر رضی اللہ عنہ نے اس لڑکی کی طرف پیغام بھیجا اور اپنے بیٹھے عاصم سے اس کا رشتہ کرادیا اس سے عاصم کی ایک بیٹی پیدا ہوئی اور اس بیٹی کے ہاں بھی ایک بیٹی ہوئی اس بیٹی کے ہاں عمر بن عبدالعزیز رحمہ علیہ کی ولادت ہوئی (یعنی وہ عمربن عبدالعزیز کی والدہ کی نانی تھی) [یہ منگر روایت ہے]۔۔۔
تخریج!۔
آجری نے اخبار عمر بن عبدالعزیز (ص ٤٩،٤٨)۔۔۔ میں محمد بن عبداللہ بن عبدالحکیم بن اعین قال!۔ اخبرنی ابی قال حدثنا عبداللہ بن زید بن اسلم عن ابیہ عن جدہ اسلم کی سند سے یہ روایت بیان کی ہے۔۔۔
جرح!۔
اس کی سند ضعیف ہے اس میں عبداللہ بن زید بن اسلم ہے سے ابن معین، ابن المدینی، جوزجانی، ابوزرعہ اور ابن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن عدی نے فرمایا اس کے ضعف کے باوجود اس کی حدیث لکھی جائے اور نسائی نے فرمایا یہ قوی نہیں ابن حبان نے فرمایا۔ نیک شخص تھا۔ بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا اور وہم کا شکار تھا ثقہ راویوں سے ایسی ایسی باتیں بیان کرتا کے فن حدیث کا مبتدی بھی انہیں سنتا تو ان کے من گھڑت ہونے کی گواہی دیتا۔۔۔ عبداللہ بن عبدالحکم بن اعین پر ابن معین نے اخبار عمر بن عبدالعزیز کی وجہ سے کچھ انکار فرمایا ہے۔۔۔
حوالے!۔
واللہ تعالٰی اعلم۔