Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کلمہ گو مشرکین کو دعوت توحید دینے میں مشکل

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • کلمہ گو مشرکین کو دعوت توحید دینے میں مشکل


    کلمہ گو مشرکین کو دعوت توحید دینے میں مشکلات



    السلام عليكم ورحمة الله وبركاته


    میں ایک بہت بڑی الجھن میں ہوں، وہ یہ کہ ہم جب کسی ایسے کلمہ گو مسلمان کو دعوت توحید دیں جس نے اپنا عقیدہ ظلم (شرک) کے ساتھ آلودہ کر رکھا ہو تو ان کی طرف سے اہل سنت والجماعت اہلحدیث پر "خوارج" کا الزام لگایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ کافروں کے بارے میں نازل کی گئی آیتوں کا اطلاق کلمہ گو مسلمانوں پر کرتے ہیں، اور جب ان کو قرآن کریم کی آیات دکھائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمت تو شرک کرہی نہیں سکتی۔ تو اس بات کا کیا جواب دیا جائے اور کس طرح اس قسم کے لوگوں کو سمجھایا جائے۔ ازراہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں-(محمد ارسلان)
    جزاک اللہ خیراالجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
    اسلامی عقائد ونظریات کی دعوت دینا، توحید باری تعالیٰ کا پرچار کرنا اورشرکیہ وکفریہ اور باطل نظریات کی تردید کرنا اور شرک وبدعات میں مبتلا عوام کی اصلاح کے لیے محنت و کوشش کرنا مستحسن فعل اور انبیاء ورسل کا منہج ہے۔علماء وصلحا کو اس فریضہ سے ضرور عہدہ برآء ہونا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ کچھ دعوت دین کے شوقین نوخیز مبلغین جو عقائد ونظریات کی تعلیمات میں راسخ نہیں ہوتے، وہ فرط جذبات میں بڑی بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں اور کفر وشرک کے دائرہ کارسے باہر ہی نہیں آتے، جس سے دعوت کاسلسلہ رک جاتا ہے اور عامۃ الناس ایسے مبلغین کی بات سننا ہی گوارہ نہیں کرتے۔اس لیے ایک تو توحید کی دعوت دینے والے کو عقیدہ کے مسائل پرعبور ہونا چاہئے اور دوسرا اسلوب دعوت میں نرمی اور شائستگی ہونی چاہیے۔عامۃ الناس میں پھیلی یہ گمراہی کہ امت مسلمہ میں شرک کا وجود ہی ناپید ہے، یہ نظریہ واعتقاد کتاب وسنت کی تعلیمات اور علمائے اہل السنہ کی آراء کے متصادم ہے، بلکہ کتاب وسنت کے دلائل کی رو سے سابقہ امتیں عقیدہ توحید ترک کرنے اور شرکیہ و کفریہ اعمال احاطۂ عمل میں لانے کی وجہ سے شرک وکفر کا مرتکب ہو کر درگاندہ راہ ہوئیں، ایسے ہی امت مسلمہ بھی شرک وکفر کاارتکاب کرنے سے مشرک وکافر قرار پائے گی، نیز کتاب وسنت کےدلائل میں کہیں بھی مذکور نہیں کہ امت مسلمہ شرک کی مرتکب نہیں ہوسکتی۔ اس کے برعکس کتاب وسنت کے دلائل میں یہ وضاحت موجود ہے کہ امت مسلمہ شرک کی مرتکب ہوسکتی ہے۔ دلائل حسب ذیل ہیں۔1۔اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو شرک کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی غرض سے اٹھارہ انبیاء کے ایک ساتھ ذکر کرنے کے بعد فرمایا:آیت کی تفسیر
    غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ اس آیت میں انبیاء علیہم السلام کی امتوں کے لیے تعریض ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اگر انہوں نے بالفرض شرک کیا توان کے نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے تو ان کی امتیں کس گنتی ميں شمارہیں۔(تبیان القرآن:3/293)حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ رقم طراز ہیں:پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں، مقصد امتوں کو شرک کی خطرناکی اورہلاکت سے آگاہ کرنا ہے۔(تفسیر احسن البیان: 359)2۔دوسرےمقام پر فرمایا:اس آیت کی تفسیر میں غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں:اس آیت میں تعریض ہے ذکر آپ کا ہے اور مراد آپ کی امت ہے۔ یعنی اگر بالفرض آپ نے بھی شرک کیا توآپ کے اعمال ضائع ہو جائیں گے تو اگر آپ کی امت کے کسی شخص نے شرک کیا تو اس کے اعمال توبطریق اولیٰ ضائع ہو جائیں گے۔(تبیان القرآن:10/293)۔یہ آیت دلیل ہیں کہ شرک انتہائی مہلک گناہ ہے اور امت مسلمہ کے کسی فرد سےشرک کا ارتکاب اس کے سابقہ اعمال کی تباہی کا باعث اور ہلاکت و بربادی کاشاخسانہ ہے۔3۔ذیل کی آیت واضح نص ہے کہ اہل ایمان سے شرک کا ظہور ممکن ہے اور کامیاب وہ مسلمان ہوں گے جو شرک کی آلائش سے پاک ہوں گے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:وہ لوگ جو ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ ملتبس نہ کیا انہی کے لیے امن ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔(الانعام:82)اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے، درج حدیث میں مزید وضاحت ہے۔
    عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں :جب یہ آیت نازل ہوئیتو اصحاب رسولﷺ پر یہ بات شاق گزری اور انہوں نے عرض کیا: ہم میں سے کون ہے جو اپنے نفس پر ظلم نہیں کرتا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس سے وہ مراد (عام ظلم) نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ اس(ظلم) سے مراد شرک ہے۔ کیا تم نے لقمان﷤ کی وہ نصیحت نہیں سنی جو وہ اپنے بیٹے کو کر رہے تھےاس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ امت مسلمہ سے شرک کا ارتکاب ممکن ہے اور روز قیامت وہی مسلمان کامیاب قرار پائے گا جو شرک کی نحوست سے محفوظ ہوا ہوگا اوراس آیت کے مخاطب مسلمان ہی ہیں تبھی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آیت کے نزول سے کبیدہ خاطر ہو ئے۔ اس میں ان لوگوں کے نظریہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ وہابی ان آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں جو کفارکےلیےنازل ہوئی ہیں، جب کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آیت کا مخاطب مسلمانوں کو ہی سمجھ رہےہیں۔4۔فرمان باری تعالیٰ ہے:5۔درج ذیل آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ صالح مو منین کو شرک سے ممانعت کا حکم دے رہے ہیں-اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:یہ آیت واضح دلیل ہے کہ اہل ایمان شرک کا نہ صرف ارتکاب کرتے ہیں،بلکہ دعویٰ ایمان کے باوجود نام نہاد مسلمانوں کی اکثریت میں شرک موجود ہی رہتا ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہےان کے علاوہ کئی قرآنی آیات جو اس بات کی شاہد ہیں کہ امت مسلمہ سےشرک کا ارتکاب ممکن ہے اور جیسے گزشتہ امتیں شرک وکفر کے ارتکاب کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوئی تھیں، امت مسلمہ میں بھی شرک کا وجود ان کی تباہی و بربادی کا باعث ہوگا۔ذیل میں وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن میں امت مسلمہ کےشرک کے مرتکب ہونے کے دلائل ہیں۔1۔عبد اللہ بن مسعود﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:2۔جابر بن عبد اللہ﷜ سےمروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوسنا، آپ ﷺنے فرمایا:3۔ابو ہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:4۔ابو ہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:5۔عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تو یہ آیت تام ہے (یعنی امت میں دوبارہ شرک نہ ہوگا) آپ ﷺنے فرمایا:جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی یہی صورت حال ہوگی، پھر اللہ تعالیٰ ایک خوش گوار ہوا بھیجیں گے تو جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا وہ فوت ہو جائے گا، پھر وہ لوگ باقی بچیں گے جن میں ذرا خیر نہ ہوگی تووہ اپنے آباء کے دین (شرک)کی طرف پلٹ جائیں گے۔(صحیح مسلم :2907)مذکورہ احادیث واضح دلیل ہیں کہ امت مسلمہ میں شرک کا وجود نہ صرف ممکن ہے، بلکہ امت مسلمہ کے کئی قبائل وافراد شرک کا ارتکاب ہی کریں گے اور قرب قیامت مسلمانوں کی اولاد شرک کے ارتکاب ہی کی وجہ سے ظہور قیامت کی راہ ہموار کرے گی۔ امت مسلمہ میں شرک کا وجود عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی میں شروع ہوگیا تھااور مرور زمانہ کے ساتھ مختلف تاویلات و تحریفات کے سہارے شرکیہ عقائد مسلمانوں میں راسخ ہو تے رہے اور مذہب کی آڑمیں اس کی مسلسل ترویج ہوتی رہی، بالآخر بعض متجددین نے امت مسلمہ سے شرک کو شجر ممنوعہ قراردے دیا، لیکن وہ شرکیہ عقائد ونظریات جن کے ارتکاب سے سابقہ امتیں زوال ونامرادی کاشکار ہوئی تھیں، اگر امت مسلمہ وہی عقائد ونظریات اختیار کرے گی تویہ بھی درگاندہ راہ ٹھہرے گی۔اس کی مزید تو ضیح حالی کے ان اشعار سے ہوتی ہے۔
    کرے غیر بُت کی پوجا تو کافرجو ٹہرائے بیٹا خدا کا تو کافرجھکے آگ پر بحرِ سجدہ تو کافرکواکب میں مانے کرشمہ تو کافرمگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیںپرستش کریں شوق سے جس کی چاہیںنبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیںاماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیںمزاروں پہ دن رات نظریں چڑھائیںشہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیںنہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئےنہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے.
    مسلمانوں کا موجودہ دوغلا پن اور شرکیہ وکفریہ اعتقادات واعمال دیکھ کر ایک ہندو شاعر پھٹ پڑتا ہے اور زبان حال سے یوں گویا ہوتا ہے۔
    ایک ہی پربھوکی پوجا ہم اگر کرتے نہیںایک ہی در پر مگر سر آپ بھی دھرتے نہیںاپنی سجدہ گاہ دیوی کا اگر استھان ہےاپنے معبودوں کی گنتی ہم اگر رکھتے نہیںآپ کے مشکل کشاؤں کو بھی گن سکتے نہیںساری درگاہوں پہ سجدہ آپ کا دستور ہےاپنے دیوی دیوتاؤں کو اگر ہے اختیارآپ کے ولیوں کی طاقت کا نہیں حدوشماروقتِ مشکل ہے اگر نعرہ مرا بجرنگ بلیلیتا ہے اوتار پربھو جبکہ اپنے دیس میںجس طرح ہم ہیں بجاتے مندروں میں گھنٹیاںتربتوں پر آپ کو دیکھا بجاتے تالیاںہم بھجن کرتے ہیں گاکر دیوتا کی خوبیاںآپ بھی قبروں پہ گاتے جھوم کر قوّالیاںہم چڑھاتے ہیں بتوں پر دودھ یا پانی کی دھارآپ کو دیکھا چڑھاتے مرغ چادر، شاندارآپ پوجیں قبر تو کیونکر ملے جنّت میں گھر؟آپ مشرک، ہم بھی مشرک معاملہ جب صاف ہےجنّتی تم،دوزخی ہم، یہ کوئی انصاف ہےمورتی پتّھر کی پوجیں گر! تو ہم بدنام ہیںکتنا ملتا جلتا اپنا آپ سے ایمان ہےشرکیہ اعمال سے گر غیر مسلم ہم ہوئےپھر وہی اعمال کرکے آپ کیوں مسلم ہوئے؟ہم بھی جنّت میں رہیں گے تم اگر ہو جنّتیورنہ دوزخ میں ہمارے ساتھ ہوں گے آپ بھیہے یہ نیّر کی صدا سن لو مسلماں غور سےاب نہ کہنا دوزخی ہم کو کسی بھی طور سے(اوم پر کاش نیّر، لدھیانوی )
    رہا اہل حدیث کو خوارج کہنا تو یہ نری جہالت اور فرقہ خوارج کےعقائد ونظریات سے لاعلمی کا نتیجہ ہے، خوارج اور اہل حدیث کے عقائد میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ اگر فرق باطلہ کے کفر وشرک اور بدعات کو طشت ازبام کرنا خوارج سے مشابہت کا سبب ہے تو فریضہ حق علما حق بیان کرتے آئے ہیں اورکرتے رہیں گے، جب کہ اندر کی بات یہ ہے کہ ان معترضین کے امام موصوف امت مسلمہ کے دیگر فرقوں کو کافرومرتد قرار دینے اور انہیں مطعون کرنے میں خاص ملکہ رکھتے اور چہار عالم میں شہرت خاص رکھتے ہیں۔ اس لیے بےتکے دلائل اور بلاوجہ مسلمانوں کو کافر قرار دینے میں یہ خوارج سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔وبالله التوفيق

Working...
X