احادیث صحیحہ کا انکار کرنے والے فاسق ہیں
سوال:
جو لوگ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی بعض صحیح احادیث کا انکار کرتے ہیں، مثلا عذاب قبر، معراج، جادو، شفاعت اور گنہگاروں کے جنہم میں جاکر پھرنجات پانے کی حدیثیں۔ ایسے لوگوں کےمتعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟کیا ان کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ ان سے سلام دعاء رکھی جاسکتی ہے؟ یا ان سے کنارہ کشی کی جائے؟
جواب:
الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ وآلہ وصحبہ وبعد:
جو علمائے کرام حدیثوں کی صحت وضعف اوران کے معنی ومطلب سے اچھی طرح واقف ہیں انہیں چاہیے کہ ایسے افراد کو ان احادیث کی صحت اور صحیح مطلب سے آگاہ کریں۔ اگر وہ پھر بھی اپنی خواہش نفس کے پیچھے لگ کر نصوص کو اپنی رائے کے مطابق بنانے کے لیے تحریف یا انکار پر اصرار کریں تو وہ فاسق ہیں ان کے شر سے بچنے کے لیے ان سے کنارہ کشی کرنا اور میل جول ترک کرنا ضروری ہے۔البتہ انہیں نصیحت کرنے اور صحیح بات سمجھانے کے لیے ان سے میل جول جائز ہے۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم وہی ہے جو فاسق کے پیچھے نماز پڑھنے کا ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔ کیونکہ بعض علماء نےانہیں کافر قراردیا ہے۔[1] (فتوی رقم6280)
وباللہ التوفیق وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم
(فتاوی دارالافتاء، سعودی عرب، جلد دوم، ص45، دارالسلام)
[1] مزید تفصیل کے لیے پڑھیں شیخ ابن باز " کا رسالہ "سنت پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کا انکار کفر ہے"۔