Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Yateem k fund ka shar'ae hukum jo United Nations k taawwun se chalti he.

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Yateem k fund ka shar'ae hukum jo United Nations k taawwun se chalti he.

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم



    یتیم کا فنڈ ایسی خیراتی تنظیم کو دینے کا شرعی حکم جو اقوام متحدہ کے تعاون سے چلتی ہے اور (القات) کھانے والے کے پیچھے نماز اور محرم کے ساتھ سفر کا شرعی حکم؟

    ترجمہ: انصاراللہ اردو ٹیم

    سوال نمبر: 663
    موضوع: فقہ اور اصول فقہ
    تاریخ اشاعت: 13-11-2009


    سوال: السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

    میرے دو سوال ہیں جنکا جواب چاہتی ہوں ۔

    ۱۔ میری تنخواہ سے ماہانہ کٹوتی ہوتی ہے جو چند یتیم بچوں کی پرورش کے لیے ہمارے مُلک میں موجود ایک خیراتی ادارے کو دی جاتی ہے لیکن میں نے اس ادارے کے ایک مجّلے میں پڑھا تھا کہ اُسے اقوام متحدہ کے اداروں کا تعاون حاصل ہے مگر مجھے اس تعاون کی کیفیت کا علم نہیں تو اُس مال کا کیا حکم ہے کہ جو اُن (بچوں) کے لیئے دیا جاتا ہے حالانکہ اس بات کا خد شہ بھی ہے کہ اس میں سے کچھ مال ان طاغوتی اداروں تک بھی پہنچتا ہو؟

    ۲۔ کیا (القات) (یمن کے علاقے میں پائے جانے والے ایک پودے کے پتے ہیں جو کھانے سے آدمی خیالوں کی دُنیا میں گُم ہوکر ہر قسم کے کام کو بھول جاتا ہے اور یہ عمل کئی گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے) کھانے والے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ؟ اور کیا یہ جائز ہے کہ میرا کوئی محرم میرے ساتھ سفر کرے اور مجھے اُس ملک میں پہنچائے کہ جہاں میری نانی اور خالائیں رہتی ہیں اور وہ خود واپس آجائے جبکہ میں وہاں اُن کے پاس رہوں مگر وہ (محرم) نہ رہے اور جب میں واپس آنا چاہوں تب وہ مجھے لینے کے لیے آئے۔ (سائل ۔ موحدہ)

    جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

    پہلےسوال کا جواب اللہ تعالیٰ آپکو یتیموں کی پرورش کے لیے صدقہ دینے پر جزائے خیر عطا فرمائے اس لیے کہ یہ نیک کاموں میں سے بہترین کام ہے۔ مگر کسی بھی مسلمان کو اپنا صدقہ دینے کی جگہ کو بڑی ہی احتیاط سے اختیار کرنا چاہیے خاص طور پر اس زمانے میں کہ جب جہادی اثاثہ جات کو نام نہاد (دہشت گردی) کے بہانے منجمد کر کے نیکی کے کاموں سے جنگ کی جاتی ہے۔ اسی لیے اس زمانے میں مستحق لوگوں تک پہنچنے والے صدقہ و خیرات بہت ہی کم اور نادر ہوچکے ہیں۔

    اس لیے کسی مسلمان کو اپنا صدقہ و خیرات اُن اداروں کے حوالے نہیں کرنا چاہیے جو ناقابل اعتبار اداروں سے تعاون کرتے ہیں پھر اُسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ مال کہاں جاتا ہے بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے والے طاغوتی اداروں کو مِلتا ہو اور وہ اسے مجاہدین کے خلاف جنگ میں خرچ کرتے ہوں اس طرح ہم اپنی غفلت اور سستی کی وجہ سے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف غیر شعوری طور پر مدد کرتے ہیں ۔

    پھر اگر ہم جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیں کہ اقوام متحدہ کے اہداف انسانی ہمدردی کے ہیں توبھی اُسکی اپنی بہت بڑی آمدن ہے جسکی وجہ سے اُسے مسلمانوں کے صدقہ و خیرات کی ضرورت ہی نہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ اور اُسکے ادارے بُنیادی طور پر مسلمانوں کے خلاف یہودونصاریٰ کی حمایت میں اُن بڑے ملکوں کے اہداف و مفادات کے حصول کے لیے بنائے گئے ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

    إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ

    ترجمہ: بلاشبہ جو لوگ کافر ہوئے وہ اپنے اموال کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔

    لہٰذا جو خیراتی ادارہ خود اس خبیث تنظیم کے تعاون کا اعلان کرتا ہے اُس پر مسلمان مخیّر حضرات کو قطعاً اعتبار نہیں کرنا چاہیے یہاں تک کہ وہ معاملے کو سمجھیں اور ان تنظیموں کی مسلمانوں کے ساتھ دُشمنی اور اُنکے دُشمنوں کی جانبداری کی حقیقت کو معلوم کرلیں کیونکہ جو اپنے دوست دُشمن کی پہچان نہیں رکھتا اُسے مسلمانوں کے اموال خرچ کرنے کے لیے امانتدار نہیں بنانا چاہیے ۔

    لہٰذا آپ پر واجب ہے کہ آپ خود اس (صدقےو خیرات) کے مستحق افراد کو تلاش کریں یا پھر اُن لوگوں کو دیں کہ جنکے دین اور عقیدے پر آپکو اعتماد ہے تاکہ وہ اسے آپ کی طرف سے اسکے مستحق افراد تک پہنچائیں اور اس فنڈ کے سب سے زیادہ مستحق مجاہدین اور اُنکے خاندان ہیں ۔

    دوسرے سوال کا جواب:

    اگرچہ (القات) کا کھانا حرام ہے مگر اسکے کھانے والے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ماسوائے اس حالت کے کہ (القات) سے اسقدر متاثر ہو کہ نماز کے دوران جو کہتا ہے اُسے نہ سمجھے اس لیے کہ صرف (القات کا کھانا) اُسکی نماز کی صحت کے منافی نہیں اور جسکی اپنی نماز صحیح ہو اُسکے پیچھے پڑھنے والے دوسروں کی نماز بھی صحیح ہے ۔

    سفر کے بارے میں آپکا سوال اگر آپ اپنی نانی اور خالاؤں کے پاس رہیں گی تو اس صورت میں آپ پر مُقیم کا شرعی حکم ہوگا اور سفر کا حکم آپ سے ختم ہوجائے گا اور چونکہ آپ ایک پُر امن جگہ رہیں گیں اس لیے آپ پر اور آپکے محرم پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپکو اُن کے پاس پہنچا کرواپس آجائے اور پھر دوبارہ آپکو لینے کے لیے آجائے ۔ واللہ اعلم

    جواب منجانب: الشیخ ابواُسامہ الشامی
    عضو شرعی کمیٹی
    منبرالتوحید والجہاد


    باب الاسلام
Working...
X