نیک اخلاق کا صحیح مفہوم
بسم الله الرحمن الرحیم
ہمارے پورے معاشرہ اور اس کے ایک ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ خود کو اس اصل سے روز بروز نزدیک کرے جس کے لئے حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمر ہمت کَسی اور بے پناہ سعی و کوشش کی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی مقاصد کو ایک جملہ میں نہیں سمویا جا سکتا تاہم اتنا ضرور ہے کہ ان اغراض و مقاصد کے نمایاں پہلووں کو اپنی زندگی کے مختلف مراحل کے لئے سرمشق قرار دیا جا سکتا ہے۔
ان میں سے ایک پہلو''مکارم اخلاق کی تکمیل'' ہے:
''بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔''
نیک اخلاق و کردار کو اپنائے بغیر معاشرہ حضور اکرمۖ کے اعلی مقاصد تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ صرف نیک اخلاق اور حسن خلق ہی فرد اور معاشرہ کو اعلی مراتب تک پہنچا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ نیک اخلاق صرف لوگوں سے خوش رفتاری میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد اپنے وجود میں نیک صفات اور عالی اخلاق کی پرورش اور اپنے عمل کے ذریعہ اس کا اظہار ہے۔ جس معاشرہ کے افراد حسد، بغض، حرص، بخل، حیلہ گری اور کینہ پروری جیسے پست اوصاف سے متصف ہوں تو قانون کے سخت نفاذ کے باجود بھی ایسا سماج سعادت سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ اگر علم و ٹکنالوجی اپنے عروج پر ہو، مدنیت اپنے کمال پر ہو پھر بھی یہ سماج مثالی سماج نہیں کہلائے گا۔ جس معاشرہ میں ایک انسان دوسرے انسان سے خائف ہو، ایک انسان دوسرے کے حسد کا شکار ہو، دوسرے کے بغض و کینہ اور اس کی سازشوں سے خوفزدہ ہو اس میں آرام و آسائش کا نام و نشان بھی نہ ہوگا، لیکن اگر کسی سماج میں عوام کے قلب و روح پر اخلاقی فضائل کی حکمرانی ہو، لوگ ایک دوسرے کے لئے مہربان ہوں، دلوں میں عفو و بخشش کے لئے جگہ ہو، مال دنیا کا لالچ نہ پایا جاتا ہو، اپنے پاس موجود اشیاء کی نسبت بخل نہ ہو، ایک دوسرے سے حسد نہ کریں، ایک دوسرے کی ترقی کی راہوں میں رکاوٹ نہ بنیں اور لوگوں میں صبر و بردباری کا بول بالا ہو تو ایسا سماج اگر مادی لحاظ سے بہت زیادہ ترقی یافتہ نہ بھی ہو، تب بھی اس کے افراد آرام و آسائش، سکون و اطمینان اور سعادت و خوش بختی سے ہمکنار ہوں گے۔ یہ ہے حقیقی اور واقعی نیک اخلاق۔ ہمیں اسی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسلامی اخلاق و کردار کو روز بروز اپنے دل و جان اور قلب و روح میں پروان چڑھانا چاہئے۔ اگرچہ بلاشک و تردید اسلام کے انفرادی اور اجتماعی احکام و قوانین انسانی سعادت کا وسیلہ ہیں لیکن ان قوانین کے نفاذ کے لئے بھی نیک اخلاق کی ضرورت ہے۔***
بسم الله الرحمن الرحیم
ہمارے پورے معاشرہ اور اس کے ایک ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ خود کو اس اصل سے روز بروز نزدیک کرے جس کے لئے حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمر ہمت کَسی اور بے پناہ سعی و کوشش کی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی مقاصد کو ایک جملہ میں نہیں سمویا جا سکتا تاہم اتنا ضرور ہے کہ ان اغراض و مقاصد کے نمایاں پہلووں کو اپنی زندگی کے مختلف مراحل کے لئے سرمشق قرار دیا جا سکتا ہے۔
ان میں سے ایک پہلو''مکارم اخلاق کی تکمیل'' ہے:
''بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔''
نیک اخلاق و کردار کو اپنائے بغیر معاشرہ حضور اکرمۖ کے اعلی مقاصد تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ صرف نیک اخلاق اور حسن خلق ہی فرد اور معاشرہ کو اعلی مراتب تک پہنچا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ نیک اخلاق صرف لوگوں سے خوش رفتاری میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد اپنے وجود میں نیک صفات اور عالی اخلاق کی پرورش اور اپنے عمل کے ذریعہ اس کا اظہار ہے۔ جس معاشرہ کے افراد حسد، بغض، حرص، بخل، حیلہ گری اور کینہ پروری جیسے پست اوصاف سے متصف ہوں تو قانون کے سخت نفاذ کے باجود بھی ایسا سماج سعادت سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ اگر علم و ٹکنالوجی اپنے عروج پر ہو، مدنیت اپنے کمال پر ہو پھر بھی یہ سماج مثالی سماج نہیں کہلائے گا۔ جس معاشرہ میں ایک انسان دوسرے انسان سے خائف ہو، ایک انسان دوسرے کے حسد کا شکار ہو، دوسرے کے بغض و کینہ اور اس کی سازشوں سے خوفزدہ ہو اس میں آرام و آسائش کا نام و نشان بھی نہ ہوگا، لیکن اگر کسی سماج میں عوام کے قلب و روح پر اخلاقی فضائل کی حکمرانی ہو، لوگ ایک دوسرے کے لئے مہربان ہوں، دلوں میں عفو و بخشش کے لئے جگہ ہو، مال دنیا کا لالچ نہ پایا جاتا ہو، اپنے پاس موجود اشیاء کی نسبت بخل نہ ہو، ایک دوسرے سے حسد نہ کریں، ایک دوسرے کی ترقی کی راہوں میں رکاوٹ نہ بنیں اور لوگوں میں صبر و بردباری کا بول بالا ہو تو ایسا سماج اگر مادی لحاظ سے بہت زیادہ ترقی یافتہ نہ بھی ہو، تب بھی اس کے افراد آرام و آسائش، سکون و اطمینان اور سعادت و خوش بختی سے ہمکنار ہوں گے۔ یہ ہے حقیقی اور واقعی نیک اخلاق۔ ہمیں اسی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسلامی اخلاق و کردار کو روز بروز اپنے دل و جان اور قلب و روح میں پروان چڑھانا چاہئے۔ اگرچہ بلاشک و تردید اسلام کے انفرادی اور اجتماعی احکام و قوانین انسانی سعادت کا وسیلہ ہیں لیکن ان قوانین کے نفاذ کے لئے بھی نیک اخلاق کی ضرورت ہے۔***