صراط مستقیم پر چلنے والی عورت آزمائش کا شکار ہے اور پوچھتی ہے کہ ایسا کیوں ہے
میں نوجوان لڑکی ہوں اور زندگی اچھی گزر رہی تھی لیکن مکمل اسلامی نہیں (میں نمازیں پڑھتی اور روزے رکھتی اور تھوڑا بہت پردہ بھی کرتی ہوں ) اور جب سے میں نے شادی کی ہے الحمد للہ اس وقت سے دین پر زیادہ عمل شروع کر دیا ہے ۔
تو یہاں سے مشکلات کا آغاز ہوا ہے مشکلات کی کثرت نے مجھے تھکا دیا ہے آپ سے گزارش ہے کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں اور مجھے نصیحت بھی کریں اور ایسے ہی آپ مجھے ایسی کتاب بتائیں جو کہ میرے لۓ جوابات کی تلاش میں معاون ثابت ہو اگرچہ عربی میں ہی ہو-
میں ہر وقت یہ سوچتی اور کہتی رہتی ہوں کہ شادی سے قبل تو میں ایسی بری نہیں تھی جب میں دوسروں کے ساتھ جو کہ دین پر نہیں چلتے موازنہ کرتی ہوں حالانکہ میں نے بہت زیادہ گناہ بھی نہیں کۓ تو میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اوراس کا حل کیا ہے ؟
تو یہاں سے مشکلات کا آغاز ہوا ہے مشکلات کی کثرت نے مجھے تھکا دیا ہے آپ سے گزارش ہے کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں اور مجھے نصیحت بھی کریں اور ایسے ہی آپ مجھے ایسی کتاب بتائیں جو کہ میرے لۓ جوابات کی تلاش میں معاون ثابت ہو اگرچہ عربی میں ہی ہو-
میں ہر وقت یہ سوچتی اور کہتی رہتی ہوں کہ شادی سے قبل تو میں ایسی بری نہیں تھی جب میں دوسروں کے ساتھ جو کہ دین پر نہیں چلتے موازنہ کرتی ہوں حالانکہ میں نے بہت زیادہ گناہ بھی نہیں کۓ تو میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اوراس کا حل کیا ہے ؟
الحمدللہ سب تعریفیں اس اللہ ہی کے لۓ ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ہو جن کا یہ قول ہے ( بے شک اللہ تعالی نے تمہارے درمیان تمہارے اخلاق کو اسی طرح تقسیم کیا ہے جس طرح کہ تمہارے درمیان رزق کی تقسیم کی ہے اور بے شک اللہ تعالی جس سے محبت کرتا ہے اسے بھی اور جس سے محبت نہیں کرتا اسے بھی دنیا عنایت کرتا ہے اور دین صرف اسے دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالی نے جسے دین عطا کیا اس سے وہ محبت کرتا ہے ------ ) اسے امام احمد نے (3490) روایت کیا اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ الصحیحہ ( 714) میں صحیح کہا ہے ۔
تو اس حدیث کی بناء پر آپ اللہ تعالی کی نعمت پر بہت زیادہ شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو اپنے دین پر استقامت دی ہے اور آپ کو اس کا علم ہونا چاہۓ کہ اس دنیا کا حال آزمائش ہی ہے کیونکہ یہ دار امتحان اور آزمائش ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
< اور ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف لوٹاۓ جاؤ گے > الانبیاء 35
اور ہر آزمائش میں مسلمان کی حالت اس طرح ہونی چاہۓ کہ اسے یقین ہو کہ اللہ تعالی نے اس کے مقدر میں جو بھی کیا ہے اس میں دنیا اور دین کی خیر ہی خیر ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
مومن کے علاوہ کسی کے لۓ نہیں اگر اسے کوئی نعمت اور آسانی نصیب ہوتی تو شکر کرتا ہے تو اس میں اس کے لۓ خیر ہے اور اگر اسے تنگی پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے تو اس میں بھی اس کے لۓ خیر ہے ) اے مسلم (2999) نے روایت کیا ہے ۔
سوال کرنے والی بہن ! جو بھی آپ نے ذکر کیا ہے وہ بھی اس ابتلاء اور امتحان میں شامل ہے جسےانسان نہیں چاہتا تو آپ پر واجب یہ ہے کہ آپ اس پر صبر کریں اور آپ کے علم میں ہونا چاہۓ کہ اللہ تعالی کے ہاں ان سب میں خیر ہے جسے وہ آپ کے لۓ چاہتا ہے ۔
اور آپ کی آزمائش کا سبب دین پر استقامت نہیں کیونکہ شرع میں یہ بات مقرر اور واضح ہے کہ دین پر استقامت سعادت کا باعث ہے جس کی ضد بد نصیبی ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے :
< ج
اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
< تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا نہ تو وہ بہکے گا اور نہ ہی تکلیف میں پڑے گا اور جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی > طہ 123- 124
(لوگوں میں سے سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء پر آتی ہیں پھر ان کے بعد ان سے ملے ہوؤں پر اور پھر ان کے بعد والوں پر ) اسے امام احمد نے (26539) روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں (1165) صحیح کہا ہے ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ :
( آدمی اپنے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے تو آزمائش اس کے ساتھ رہتی ہے حتی کہ جب اسے چھوڑتی ہے تو وہ زمین پر ایسے چلتا ہے کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی گناہ نہیں رہتا ۔
اسے ابن ماجہ نے (4013) روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابن ماجہ میں (3249) صحیح کہا ہے ۔
اور جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ دنیا کی تنگی اور کشادگی انسان کے دین پر موقوف نہیں ۔
اور اے بہن ہماری آپ کو نصیحت یہ ہے کہ :
اپنے آپ کو صبر کرنے کی عادت ڈالیں اور اللہ تعالی کے ساتھ غلط گمان اور فاسد سوچ نہ رکھیں اور ان گمان کی بنا پر استقامت میں کمزوری نہ دکھائیں اور ان کے تعاون میں سب سے اہم چیز دعا ہے بلکہ بعض اوقات آزمائش کے سبب سے انسان اپنے رب سے کثرت سے دعا کرتا ہے جس کی بنا پر اسے بہت زیادہ خیر ہوتی ہے ۔
تو آپ قرآن وسنت سے آزمائش کو ختم کرنے والی مناسب دعائیں اختیار کریں جیسا کہ ایوب علیہ السلام کی دعا ہے ( جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئ ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ) الانبیاء / 83-
مومن کو آزمایا جاتا ہے اور اللہ تعالی کے اسے اس ابتلاء میں ڈالنے اور تکلیف دینے کے دوعظیم فائدے ہیں۔
پہلا : فائدہ: اس آدمی کا ایمان سچا اور پختہ ہے یا کہ اسکا ایمان متزلزل ہے۔ تو جو اپنے ایمان میں سچا ہے وہ تو اس ابتلاء پر اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر صبر کرتا اور اللہ تعالی سے ثواب کی نیت کرتا ہے تو اس وقت اس پر یہ معاملہ آسان ہوجاتا ہے۔ کسی عابدہ عورت سے بیان کیا جاتا ہے کہ اسکی انگلی کٹ گئ یا زخم آیا تو اس نے تکلیف محسوس نہیں کی اور نہ ہی بے قراری ظاہر کی تو اسے اسکے بارہ میں کہا گیا تو اسنے جواب دیا۔ کہ مجھے اس کے اجر کی مٹھاس نے اسکے صبر کی کڑواہٹ بھلادی۔ تو مومن آدمی اللہ تعالی سے اجر کی نیت کرے اور اسے مکمل طور پر تسلیم کرے۔ تو یہ ایک فائدہ ہے۔
دوسرا فائدہ: اللہ تعالی نے صبر کرنے والوں کی بہت زیادہ تعریف کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ انکے ساتھ ہے اور انہیں بغیر حساب کے اجر دے گا۔ اور ایک ایسا درجہ ہے جو کہ صرف اسے ملتا ہے جو کہ ان امور میں مبتلا کیا جائے جن میں صبر کیا جاتا ہے تو اگر وہ ان پر صبر کرے تو اس بلند درجے کو حاصل کرے گا جس میں اجر عظیم ہے۔
تو اللہ تعالی کا مومن کو تکلیف دہ امور میں مبتلا کرنے کا سبب یہ ہے کہ وہ صابرین کے درجہ کو حاصل کرلیں۔ اور اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار کی اتنی تیزی ہوتی تھی جتنا کہ دو آدمیوں کو ہوتا ہے اور حالت نزع میں اسکی نزع میں اسکی شدت اور زیادہ ہوگئ تھی۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایمان اور تقوی اور خشیت الہی کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ مومن اور متقی اور اللہ تعالی سے ڈرنے والے تھے۔ تو سب کچھ اس لئے تھا کہ انکے صبر کا درجہ مکمل ہوجائے بیشک سب سے زیادہ صابر تھے۔
تو اس سے آپ کے سامنے یہ واضح ہوگیا ہوگا کہ اللہ تعالی مومنوں کو اس طرح کے مصائب میں کیوں مبتلا کرتا ہے۔ اور اسکی کیا حکمت ہے۔
اور رہا یہ معاملہ کہ فاسقوں فاجروں اور نافرمانوں اور کفار پر عافیت اور رزق کی فراوانی کیوں ہوتی ہے تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے انکے لئے ڈھیل ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا۔
(بیشک مومن کے لئے جیل خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے) تو انہیں یہ اچھی اشیاء دنیاوی زندگی میں جلد دیدی جاتی ہیں اور قیامت کے دن وہ اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔
فرمان باری تعالی ہے۔
"اور جس دن جہنم کے سرے پر لائے جائیں گے (کہا جائے گا) تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کردیں اور ان سے فائدے اٹھاچکے پس آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اسکے باعث کہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے اور اسکے باعث بھی کہ تم حکم عدولی کیا کرتے تھے"
تو حاصل یہ ہے کہ یہ دنیا کافروں کے لئے ہے اس میں انہیں ڈھیل دی جارہی ہے اور جب وہ اس دنیا جسمیں انہیں نعمتیں ملتی رہیں سے آخرت میں منتقل ہونگے تو عذاب پائيں گے اور اس سے اللہ کی پناہ تو یہ عذاب ان پر بہت سخت ہوگا کیونکہ وہ عذاب میں سزا اور عقوبت پائیں گے اور اس لئے بھی کہ انکی دنیا بھی ختم ہوگئ جس میں وہ نعمتیں اور خوشیاں حاصل کرتے تھے۔
اور یہ تیسرا فائدہ بھی ممکن ہے کہ اسے دونوں فائدوں کے ساتھ اضافہ کردیا جائے۔ کہ مومن جو بیماریاں اور تکالیف پاتا ہے تو جب وہ اس دنیا سے اچھے دار آخرت کی طرف منتقل ہوگا تو اسکا یہ ایک ایسے اذیت ناک اور المناک دار جو کہ دنیا ہے سے ایک اچھے اور فرحت والی آخرت کی طرف منتقل ہونا ہے جس سے اسے فرحت اور خوشی حاصل ہوگی کیونکہ اسے وہ نعمتیں دگنی سے بھی زیادہ ملیں گی اور اذیت اور مصائب کا دور ختم ہونے کی بھی خوشی ہوگی- .
اور اللہ تعالی سے دعا قبول ہونے کا یقین رکھیں اور جلد بازی سے کام نہ لیں کیونکہ اللہ تعالی ماں کے اپنے بیٹے پر رحم کرنے سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے اور اپنے آپ کا شرعی اذکار کے ساتھ بچاؤ کریں ۔
اور صبر پر ممد اور معاون اشیاء میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ اور ان کی آزمائش اور سختی کے متعلق واقعات کا مطالعہ ہے اور اسی طرح دنیا وآخرت میں صبر کرنے والوں کے اجر کے متعلق غوروفکر اور اس موضوع کی کتابوں میں سے ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب عدۃ الصابرین بہت مفید کتاب ہے ۔
واللہ اعلم .
تو اس حدیث کی بناء پر آپ اللہ تعالی کی نعمت پر بہت زیادہ شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو اپنے دین پر استقامت دی ہے اور آپ کو اس کا علم ہونا چاہۓ کہ اس دنیا کا حال آزمائش ہی ہے کیونکہ یہ دار امتحان اور آزمائش ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
< اور ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف لوٹاۓ جاؤ گے > الانبیاء 35
اور ہر آزمائش میں مسلمان کی حالت اس طرح ہونی چاہۓ کہ اسے یقین ہو کہ اللہ تعالی نے اس کے مقدر میں جو بھی کیا ہے اس میں دنیا اور دین کی خیر ہی خیر ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
مومن کے علاوہ کسی کے لۓ نہیں اگر اسے کوئی نعمت اور آسانی نصیب ہوتی تو شکر کرتا ہے تو اس میں اس کے لۓ خیر ہے اور اگر اسے تنگی پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے تو اس میں بھی اس کے لۓ خیر ہے ) اے مسلم (2999) نے روایت کیا ہے ۔
سوال کرنے والی بہن ! جو بھی آپ نے ذکر کیا ہے وہ بھی اس ابتلاء اور امتحان میں شامل ہے جسےانسان نہیں چاہتا تو آپ پر واجب یہ ہے کہ آپ اس پر صبر کریں اور آپ کے علم میں ہونا چاہۓ کہ اللہ تعالی کے ہاں ان سب میں خیر ہے جسے وہ آپ کے لۓ چاہتا ہے ۔
اور آپ کی آزمائش کا سبب دین پر استقامت نہیں کیونکہ شرع میں یہ بات مقرر اور واضح ہے کہ دین پر استقامت سعادت کا باعث ہے جس کی ضد بد نصیبی ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے :
< ج
اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
< تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا نہ تو وہ بہکے گا اور نہ ہی تکلیف میں پڑے گا اور جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی > طہ 123- 124
(لوگوں میں سے سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء پر آتی ہیں پھر ان کے بعد ان سے ملے ہوؤں پر اور پھر ان کے بعد والوں پر ) اسے امام احمد نے (26539) روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں (1165) صحیح کہا ہے ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ :
( آدمی اپنے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے تو آزمائش اس کے ساتھ رہتی ہے حتی کہ جب اسے چھوڑتی ہے تو وہ زمین پر ایسے چلتا ہے کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی گناہ نہیں رہتا ۔
اسے ابن ماجہ نے (4013) روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابن ماجہ میں (3249) صحیح کہا ہے ۔
اور جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ دنیا کی تنگی اور کشادگی انسان کے دین پر موقوف نہیں ۔
اور اے بہن ہماری آپ کو نصیحت یہ ہے کہ :
اپنے آپ کو صبر کرنے کی عادت ڈالیں اور اللہ تعالی کے ساتھ غلط گمان اور فاسد سوچ نہ رکھیں اور ان گمان کی بنا پر استقامت میں کمزوری نہ دکھائیں اور ان کے تعاون میں سب سے اہم چیز دعا ہے بلکہ بعض اوقات آزمائش کے سبب سے انسان اپنے رب سے کثرت سے دعا کرتا ہے جس کی بنا پر اسے بہت زیادہ خیر ہوتی ہے ۔
تو آپ قرآن وسنت سے آزمائش کو ختم کرنے والی مناسب دعائیں اختیار کریں جیسا کہ ایوب علیہ السلام کی دعا ہے ( جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئ ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ) الانبیاء / 83-
مومن کو آزمایا جاتا ہے اور اللہ تعالی کے اسے اس ابتلاء میں ڈالنے اور تکلیف دینے کے دوعظیم فائدے ہیں۔
پہلا : فائدہ: اس آدمی کا ایمان سچا اور پختہ ہے یا کہ اسکا ایمان متزلزل ہے۔ تو جو اپنے ایمان میں سچا ہے وہ تو اس ابتلاء پر اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر صبر کرتا اور اللہ تعالی سے ثواب کی نیت کرتا ہے تو اس وقت اس پر یہ معاملہ آسان ہوجاتا ہے۔ کسی عابدہ عورت سے بیان کیا جاتا ہے کہ اسکی انگلی کٹ گئ یا زخم آیا تو اس نے تکلیف محسوس نہیں کی اور نہ ہی بے قراری ظاہر کی تو اسے اسکے بارہ میں کہا گیا تو اسنے جواب دیا۔ کہ مجھے اس کے اجر کی مٹھاس نے اسکے صبر کی کڑواہٹ بھلادی۔ تو مومن آدمی اللہ تعالی سے اجر کی نیت کرے اور اسے مکمل طور پر تسلیم کرے۔ تو یہ ایک فائدہ ہے۔
دوسرا فائدہ: اللہ تعالی نے صبر کرنے والوں کی بہت زیادہ تعریف کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ انکے ساتھ ہے اور انہیں بغیر حساب کے اجر دے گا۔ اور ایک ایسا درجہ ہے جو کہ صرف اسے ملتا ہے جو کہ ان امور میں مبتلا کیا جائے جن میں صبر کیا جاتا ہے تو اگر وہ ان پر صبر کرے تو اس بلند درجے کو حاصل کرے گا جس میں اجر عظیم ہے۔
تو اللہ تعالی کا مومن کو تکلیف دہ امور میں مبتلا کرنے کا سبب یہ ہے کہ وہ صابرین کے درجہ کو حاصل کرلیں۔ اور اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار کی اتنی تیزی ہوتی تھی جتنا کہ دو آدمیوں کو ہوتا ہے اور حالت نزع میں اسکی نزع میں اسکی شدت اور زیادہ ہوگئ تھی۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایمان اور تقوی اور خشیت الہی کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ مومن اور متقی اور اللہ تعالی سے ڈرنے والے تھے۔ تو سب کچھ اس لئے تھا کہ انکے صبر کا درجہ مکمل ہوجائے بیشک سب سے زیادہ صابر تھے۔
تو اس سے آپ کے سامنے یہ واضح ہوگیا ہوگا کہ اللہ تعالی مومنوں کو اس طرح کے مصائب میں کیوں مبتلا کرتا ہے۔ اور اسکی کیا حکمت ہے۔
اور رہا یہ معاملہ کہ فاسقوں فاجروں اور نافرمانوں اور کفار پر عافیت اور رزق کی فراوانی کیوں ہوتی ہے تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے انکے لئے ڈھیل ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا۔
(بیشک مومن کے لئے جیل خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے) تو انہیں یہ اچھی اشیاء دنیاوی زندگی میں جلد دیدی جاتی ہیں اور قیامت کے دن وہ اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔
فرمان باری تعالی ہے۔
"اور جس دن جہنم کے سرے پر لائے جائیں گے (کہا جائے گا) تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کردیں اور ان سے فائدے اٹھاچکے پس آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اسکے باعث کہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے اور اسکے باعث بھی کہ تم حکم عدولی کیا کرتے تھے"
تو حاصل یہ ہے کہ یہ دنیا کافروں کے لئے ہے اس میں انہیں ڈھیل دی جارہی ہے اور جب وہ اس دنیا جسمیں انہیں نعمتیں ملتی رہیں سے آخرت میں منتقل ہونگے تو عذاب پائيں گے اور اس سے اللہ کی پناہ تو یہ عذاب ان پر بہت سخت ہوگا کیونکہ وہ عذاب میں سزا اور عقوبت پائیں گے اور اس لئے بھی کہ انکی دنیا بھی ختم ہوگئ جس میں وہ نعمتیں اور خوشیاں حاصل کرتے تھے۔
اور یہ تیسرا فائدہ بھی ممکن ہے کہ اسے دونوں فائدوں کے ساتھ اضافہ کردیا جائے۔ کہ مومن جو بیماریاں اور تکالیف پاتا ہے تو جب وہ اس دنیا سے اچھے دار آخرت کی طرف منتقل ہوگا تو اسکا یہ ایک ایسے اذیت ناک اور المناک دار جو کہ دنیا ہے سے ایک اچھے اور فرحت والی آخرت کی طرف منتقل ہونا ہے جس سے اسے فرحت اور خوشی حاصل ہوگی کیونکہ اسے وہ نعمتیں دگنی سے بھی زیادہ ملیں گی اور اذیت اور مصائب کا دور ختم ہونے کی بھی خوشی ہوگی- .
اور اللہ تعالی سے دعا قبول ہونے کا یقین رکھیں اور جلد بازی سے کام نہ لیں کیونکہ اللہ تعالی ماں کے اپنے بیٹے پر رحم کرنے سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے اور اپنے آپ کا شرعی اذکار کے ساتھ بچاؤ کریں ۔
اور صبر پر ممد اور معاون اشیاء میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ اور ان کی آزمائش اور سختی کے متعلق واقعات کا مطالعہ ہے اور اسی طرح دنیا وآخرت میں صبر کرنے والوں کے اجر کے متعلق غوروفکر اور اس موضوع کی کتابوں میں سے ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب عدۃ الصابرین بہت مفید کتاب ہے ۔
واللہ اعلم .