سودى بنكوں سے لين دين كرنا
سودى بنكوں كے ساتھ لين دين كرنے كا حكم.
الحمد للہ : سوال:
مندرجہ ذيل اشخاص كا حكم كيا ہے:
- وہ شخص جو بنك ميں رقم ركھے اور سال گزرنے پر فائدہ حاصل كرے؟
- كچھ مدت كے ليے بنك سے فائدہ پر قرض حاصل كرنے والا شخص؟
- وہ شخص جو ان بنكوں ميں رقم ركھے ليكن اس پر فائدہ حاصل نہ كرے؟
- ان بنكوں ميں ملازمت كرنے والا شخص چاہے وہ مينجر ہو يا كوئى اور؟
بنك كو اپنى جگہ اور مكان كرايہ پر دينے والے كا حكم كيا ہے؟
جواب:
الحمد للہ:
بنكوں ميں نہ تو فائدہ كے ساتھ رقم ركھى جاسكتى ہے اور نہ ہى بنك سے فائدہ پر قرض حاصل كرنا جائز ہے، كيونكہ يہ سب كچھ صريحا سود ہے، اور بنكوں كے علاوہ كہيں اور بھى فائدہ پر رقم ركھنى جائز نہيں، اور اسى طرح كسى شخص سے بھى فائدہ پر قرض حاصل كرنا جائز نہيں ہے، بلكہ سب اہل علم كے ہاں يہ حرام ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{اور اللہ تعالى نے بيع حلال كى اور سود حرام كيا ہے}
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{اللہ تعالى سود كو مٹاتا اور صدقے كو بڑھاتا ہے}
اور ايك جگہ پر فرمايا:
{اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اخيتار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو، اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كر لو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائےگا}
پھر اللہ تعالى نے اس سب كچھ كے بعد فرمايا:
{اور اگر وہ تنگ دست ہو تو اسے اس كى آسانى تك كےليے مہلت دے دو} الآيۃ ...
اللہ تعالى اس سے اپنے بندوں كو يہ تنبيہ كرنا چاہتا ہے كہ تنگ دست سے قرض كى ادائيگى كا مطالبہ كرنا جائز نہيں اور نہ ہى اسے مہلت دينے كے عوض ميں زيادہ رقم عائد كرنى جائز ہے، بلكہ اس كى خوشحالى تك بغير رقم زيادہ كيے انتظار كرنا واجب اور ضرورى ہے، كيونكہ وہ ادائيگى سے عاجز ہے، يہ سب كچھ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر رحمت اور اس كا فضل و كرم اور مہربانى ہے، اور انہيں ظلم اور بد ترين قسم كے لالچ سے بچانا ہے جوان كے ليے نقصان دہ ہے نہ كہ نفع مند.
اور مجبورى كے وقت بنك ميں بغير كسى فائدہ كے رقم ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، اور سودى بنك ميں ملازمت كرنا جائز نہيں چاہے مينجر ہو يا منشى اور اكاؤنٹنٹ يا كوئى اور كام، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{اور نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون مت كرو اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو بلا شبہ اللہ تعالى شديد سزا دينے والا ہے}
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنے، اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں.
يہ حديث امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كى ہے.
معاصى و گناہ اور برائى ميں تعاون كرنے كى حرمت پر بہت سى آيات و احاديث دلالت كرتى ہيں، اور اسى طرح مذكورہ دلائل كى روشنى ميں سودى بنكوں كو عمارتيں كرايہ پر دينا جائز نہيں، اور اس ليے بھى كہ اس ميں سودى كاموں ميں ان كى معاونت ہوتى ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب كو ہدايت كى نعمت سے نوازے اور سب مسلمانوں كو چاہے وہ حكمران ہيں يا محكوم اللہ تعالى سود سے جنگ كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور سود سے بچا كر ركھے، شرعى معاملات ميں جنہيں اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے مباح قرار ديا ہے اسى ميں كفائت ہے، بلا شبہ اللہ تعالى اس پر قادر ہے.
الشيخ ابن باز ( رحمہ اللہ تعالى )
بنكوں ميں سرمايہ كارى كرنے كا حكم كيا ہے؟ يہ علم ميں رہے كہ بنك رقم ركھنے پر فائدہ ديتے ہيں؟
جواب:
الحمد للہ:
شريعت اسلاميہ كا علم ركھنے والوں كے ہاں يہ بات معلوم ہے كہ بنكوں ميں سودى فائدہ پر سرمايہ كارى كرنا شرعا حرام، اور كبيرہ گناہوں ميں سے ايك كبيرہ گناہ، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے جنگ ہے.
جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{وہ لوگ جو سود كھاتے ہيں وہ نہ كھڑے ہونگے مگر اسى طرح جس طرح وہ كھڑا ہوتا ہے جسے شيطان چھو كر خبطى بنا دے، يہ اس ليے كہ وہ كہا كرتے تھے كہ تجارت بھى تو سود ہى كى طرح ہے، حالانكہ اللہ تعالى نے تجارت حلال كى اور سود حرام كيا ہے، جو شخص اپنے پاس آئى ہوئى اللہ تعالى كى نصيحت سن كر رك گيا اس كے ليے وہ ہے جو گزر چكا، اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كے سپرد، اور جو كوئى دوبارہ اس طرف لوٹا وہ جہنمى ہے، ايسے لوگ ہى اس ميں ہميشہ رہيں گے، اللہ تعالى سود كو مٹاتا ہے، اور صدقہ بڑھاتا ہے، اور اللہ تعالى كسى ناشكرے اور گنہگار سے محبت نہيں كرتا} البقرۃ ( 275 - 276 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو، اور اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كرلو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے گا}
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ثابت ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنےوالے اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں"
اسے مسلم نے صحيح مسلم ميں نقل كيا ہے.
اور صحيح بخارى ميں امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور سود كھلانے والےاور تصاوير پر لعنت فرمائى"
اور بخارى و مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہلاكت والى سات اشياء سے اجتناب كرو، ہم نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كونسى ہيں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى كے ساتھ شرك كرنا، اور جادو، اور اللہ تعالى كى جانب سے حرام كردہ جان كو ناحق قتل كرنا، اور سود كھانا، اور يتيم كا مال ہڑپ كرنا، اور ميدان جنگ سے پيٹھ پھير كر بھاگنا، اور پاكباز غافل مومن عورتوں پر بہتان لگانا"
اس معنى - سود كى حرمت اور اس سے بچنے كے دلائل - كى آيات اور احاديث بہت زيادہ ہيں، لہذا سب مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ سود كو ترك كرديں اور اس سے بچيں، اور ايك دوسرے كو اس سے اجتناب كرنے كى تلقين بھى كريں.
اور مسلمان حكمران اور ذمہ داران پر بھى واجب ہے كہ وہ اپنے ملك ميں بنك قائم كرنے والوں كو اس سے منع كريں، اور اللہ تعالى كے حكم كا نفاذ كرتے اور اس كى سزا سے بچتے ہوئے انہيں شريعت اسلاميہ كا پابند بنائيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{داود اور عيسى بن مريم ( عليہما السلام ) كى زبان سے بنى اسرائيل ميں سے ان لوگوں پر لعنت كى گئى جنہوں نے كفر كيا، يہ اس ليے كہ انہوں نے جو نافرمانياں اور معصيت كا ارتكاب كرتے تھے، اور وہ حد سے تجاوز كرتے تھے، وہ جو برائياں كرتے اس سے ايك دوسرے كو روكتے نہيں تھے، جو كچھ وہ كرتے تھے يقينا وہ بہت ہى برا تھا} المائدۃ ( 79 ).
اور ايك مقام پر اللہ عزوجل نے فرمايا:
{اور مومن مرد اور مومن عورتيں ايك دوسرے كے ولى ہيں، وہ ايك دوسرے كو نيكى كا حكم ديتے اور برائى سے منع كرتے ہيں}
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب لوگ برائى ديكھيں اور اس برائى وہ نہ روكيں تو قريب ہے كہ اللہ تعالى ان سب كو عمومى سزا دے دے"
امر بالمعروف اور نہى عن المنكر يعنى نيكى كاحكم دينے اور برائى سے منع كرنے كے وجوب ميں بہت زيادہ آيات و احاديث وارد ہيں، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب مسلمانوں وہ حكمران ہوں يا علماء يا عام رعايا كے لوگ اور عام لوگ ان سب كو شريعت اسلاميہ پر چلنے كى توفيق عطا فرمائے، اوراس پر استقامت بخشے، اور شريعت اسلاميہ كى مخالفت كرنے والى ہر چيز سے بچنے كى توفيق عطا فرمائے. بلاشبہ اسى اللہ تعالى ہى سب سے بہتر دينے والا ہے.
الشيخ ابن باز ( رحمہ اللہ تعالى )
معين نفع كے ساتھ بنكوں ميں رقم ركھنے كا حكم كيا ہے.... ؟
جواب:
الحمد للہ:
معين منافع كے ساتھ بنكوں مين رقم ركھنا جائز نہيں، كيونكہ يہ معاہدہ سود پر مشتمل ہے، اور پھر اللہ تعالى كا فرمان تو يہ ہے كہ:
{اور اللہ تعالى نے تجارت كو حلال كيا اور سود كو حرام قرار ديا ہے}
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم سچے مومن ہو، اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كرلو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم خود ظلم كرو اور نہ ہى تم پرظلم كيا جائے گا}
اور يہ رقم ركھنے والا جو اس رقم پر جو كچھ حاصل كررہا ہے اس ميں كوئى بركت نہيں كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{اللہ تعالى سود كو مٹاتا اور صدقہ كو بڑھاتا ہے}
يہ قسم رباالنسيئۃ اور رباالفضل ميں شامل ہے، كيونكہ رقم ركھنے والا شخص بنك كو اپنى رقم اس شرط پر ديتا ہے كہ يہ رقم ايك معلوم مدت تك منافع كى معلوم مقدار كے ساتھ بنك ميں رہے گى...
مستقل فتوى اور ريسرچ كميٹى ( اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء )
واللہ اعلم .
مندرجہ ذيل اشخاص كا حكم كيا ہے:
- وہ شخص جو بنك ميں رقم ركھے اور سال گزرنے پر فائدہ حاصل كرے؟
- كچھ مدت كے ليے بنك سے فائدہ پر قرض حاصل كرنے والا شخص؟
- وہ شخص جو ان بنكوں ميں رقم ركھے ليكن اس پر فائدہ حاصل نہ كرے؟
- ان بنكوں ميں ملازمت كرنے والا شخص چاہے وہ مينجر ہو يا كوئى اور؟
بنك كو اپنى جگہ اور مكان كرايہ پر دينے والے كا حكم كيا ہے؟
جواب:
الحمد للہ:
بنكوں ميں نہ تو فائدہ كے ساتھ رقم ركھى جاسكتى ہے اور نہ ہى بنك سے فائدہ پر قرض حاصل كرنا جائز ہے، كيونكہ يہ سب كچھ صريحا سود ہے، اور بنكوں كے علاوہ كہيں اور بھى فائدہ پر رقم ركھنى جائز نہيں، اور اسى طرح كسى شخص سے بھى فائدہ پر قرض حاصل كرنا جائز نہيں ہے، بلكہ سب اہل علم كے ہاں يہ حرام ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{اور اللہ تعالى نے بيع حلال كى اور سود حرام كيا ہے}
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{اللہ تعالى سود كو مٹاتا اور صدقے كو بڑھاتا ہے}
اور ايك جگہ پر فرمايا:
{اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اخيتار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو، اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كر لو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائےگا}
پھر اللہ تعالى نے اس سب كچھ كے بعد فرمايا:
{اور اگر وہ تنگ دست ہو تو اسے اس كى آسانى تك كےليے مہلت دے دو} الآيۃ ...
اللہ تعالى اس سے اپنے بندوں كو يہ تنبيہ كرنا چاہتا ہے كہ تنگ دست سے قرض كى ادائيگى كا مطالبہ كرنا جائز نہيں اور نہ ہى اسے مہلت دينے كے عوض ميں زيادہ رقم عائد كرنى جائز ہے، بلكہ اس كى خوشحالى تك بغير رقم زيادہ كيے انتظار كرنا واجب اور ضرورى ہے، كيونكہ وہ ادائيگى سے عاجز ہے، يہ سب كچھ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر رحمت اور اس كا فضل و كرم اور مہربانى ہے، اور انہيں ظلم اور بد ترين قسم كے لالچ سے بچانا ہے جوان كے ليے نقصان دہ ہے نہ كہ نفع مند.
اور مجبورى كے وقت بنك ميں بغير كسى فائدہ كے رقم ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، اور سودى بنك ميں ملازمت كرنا جائز نہيں چاہے مينجر ہو يا منشى اور اكاؤنٹنٹ يا كوئى اور كام، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{اور نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون مت كرو اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو بلا شبہ اللہ تعالى شديد سزا دينے والا ہے}
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنے، اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں.
يہ حديث امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كى ہے.
معاصى و گناہ اور برائى ميں تعاون كرنے كى حرمت پر بہت سى آيات و احاديث دلالت كرتى ہيں، اور اسى طرح مذكورہ دلائل كى روشنى ميں سودى بنكوں كو عمارتيں كرايہ پر دينا جائز نہيں، اور اس ليے بھى كہ اس ميں سودى كاموں ميں ان كى معاونت ہوتى ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب كو ہدايت كى نعمت سے نوازے اور سب مسلمانوں كو چاہے وہ حكمران ہيں يا محكوم اللہ تعالى سود سے جنگ كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور سود سے بچا كر ركھے، شرعى معاملات ميں جنہيں اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے مباح قرار ديا ہے اسى ميں كفائت ہے، بلا شبہ اللہ تعالى اس پر قادر ہے.
الشيخ ابن باز ( رحمہ اللہ تعالى )
بنكوں ميں فائدہ ( سود ) پر سرمايہ كارى كرنے كا حكم
سوال: بنكوں ميں سرمايہ كارى كرنے كا حكم كيا ہے؟ يہ علم ميں رہے كہ بنك رقم ركھنے پر فائدہ ديتے ہيں؟
جواب:
الحمد للہ:
شريعت اسلاميہ كا علم ركھنے والوں كے ہاں يہ بات معلوم ہے كہ بنكوں ميں سودى فائدہ پر سرمايہ كارى كرنا شرعا حرام، اور كبيرہ گناہوں ميں سے ايك كبيرہ گناہ، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے جنگ ہے.
جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{وہ لوگ جو سود كھاتے ہيں وہ نہ كھڑے ہونگے مگر اسى طرح جس طرح وہ كھڑا ہوتا ہے جسے شيطان چھو كر خبطى بنا دے، يہ اس ليے كہ وہ كہا كرتے تھے كہ تجارت بھى تو سود ہى كى طرح ہے، حالانكہ اللہ تعالى نے تجارت حلال كى اور سود حرام كيا ہے، جو شخص اپنے پاس آئى ہوئى اللہ تعالى كى نصيحت سن كر رك گيا اس كے ليے وہ ہے جو گزر چكا، اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كے سپرد، اور جو كوئى دوبارہ اس طرف لوٹا وہ جہنمى ہے، ايسے لوگ ہى اس ميں ہميشہ رہيں گے، اللہ تعالى سود كو مٹاتا ہے، اور صدقہ بڑھاتا ہے، اور اللہ تعالى كسى ناشكرے اور گنہگار سے محبت نہيں كرتا} البقرۃ ( 275 - 276 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو، اور اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كرلو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے گا}
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ثابت ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنےوالے اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں"
اسے مسلم نے صحيح مسلم ميں نقل كيا ہے.
اور صحيح بخارى ميں امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور سود كھلانے والےاور تصاوير پر لعنت فرمائى"
اور بخارى و مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہلاكت والى سات اشياء سے اجتناب كرو، ہم نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كونسى ہيں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى كے ساتھ شرك كرنا، اور جادو، اور اللہ تعالى كى جانب سے حرام كردہ جان كو ناحق قتل كرنا، اور سود كھانا، اور يتيم كا مال ہڑپ كرنا، اور ميدان جنگ سے پيٹھ پھير كر بھاگنا، اور پاكباز غافل مومن عورتوں پر بہتان لگانا"
اس معنى - سود كى حرمت اور اس سے بچنے كے دلائل - كى آيات اور احاديث بہت زيادہ ہيں، لہذا سب مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ سود كو ترك كرديں اور اس سے بچيں، اور ايك دوسرے كو اس سے اجتناب كرنے كى تلقين بھى كريں.
اور مسلمان حكمران اور ذمہ داران پر بھى واجب ہے كہ وہ اپنے ملك ميں بنك قائم كرنے والوں كو اس سے منع كريں، اور اللہ تعالى كے حكم كا نفاذ كرتے اور اس كى سزا سے بچتے ہوئے انہيں شريعت اسلاميہ كا پابند بنائيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{داود اور عيسى بن مريم ( عليہما السلام ) كى زبان سے بنى اسرائيل ميں سے ان لوگوں پر لعنت كى گئى جنہوں نے كفر كيا، يہ اس ليے كہ انہوں نے جو نافرمانياں اور معصيت كا ارتكاب كرتے تھے، اور وہ حد سے تجاوز كرتے تھے، وہ جو برائياں كرتے اس سے ايك دوسرے كو روكتے نہيں تھے، جو كچھ وہ كرتے تھے يقينا وہ بہت ہى برا تھا} المائدۃ ( 79 ).
اور ايك مقام پر اللہ عزوجل نے فرمايا:
{اور مومن مرد اور مومن عورتيں ايك دوسرے كے ولى ہيں، وہ ايك دوسرے كو نيكى كا حكم ديتے اور برائى سے منع كرتے ہيں}
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب لوگ برائى ديكھيں اور اس برائى وہ نہ روكيں تو قريب ہے كہ اللہ تعالى ان سب كو عمومى سزا دے دے"
امر بالمعروف اور نہى عن المنكر يعنى نيكى كاحكم دينے اور برائى سے منع كرنے كے وجوب ميں بہت زيادہ آيات و احاديث وارد ہيں، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب مسلمانوں وہ حكمران ہوں يا علماء يا عام رعايا كے لوگ اور عام لوگ ان سب كو شريعت اسلاميہ پر چلنے كى توفيق عطا فرمائے، اوراس پر استقامت بخشے، اور شريعت اسلاميہ كى مخالفت كرنے والى ہر چيز سے بچنے كى توفيق عطا فرمائے. بلاشبہ اسى اللہ تعالى ہى سب سے بہتر دينے والا ہے.
الشيخ ابن باز ( رحمہ اللہ تعالى )
بنكوں ميں خاص منافع پر رقم ركھنے كا حكم
سوال: معين نفع كے ساتھ بنكوں ميں رقم ركھنے كا حكم كيا ہے.... ؟
جواب:
الحمد للہ:
معين منافع كے ساتھ بنكوں مين رقم ركھنا جائز نہيں، كيونكہ يہ معاہدہ سود پر مشتمل ہے، اور پھر اللہ تعالى كا فرمان تو يہ ہے كہ:
{اور اللہ تعالى نے تجارت كو حلال كيا اور سود كو حرام قرار ديا ہے}
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم سچے مومن ہو، اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كرلو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم خود ظلم كرو اور نہ ہى تم پرظلم كيا جائے گا}
اور يہ رقم ركھنے والا جو اس رقم پر جو كچھ حاصل كررہا ہے اس ميں كوئى بركت نہيں كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{اللہ تعالى سود كو مٹاتا اور صدقہ كو بڑھاتا ہے}
يہ قسم رباالنسيئۃ اور رباالفضل ميں شامل ہے، كيونكہ رقم ركھنے والا شخص بنك كو اپنى رقم اس شرط پر ديتا ہے كہ يہ رقم ايك معلوم مدت تك منافع كى معلوم مقدار كے ساتھ بنك ميں رہے گى...
مستقل فتوى اور ريسرچ كميٹى ( اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء )
واللہ اعلم .