?یہ غدیر خم کا اصل قصہ کیا ہے
سن ١٠ ہجری میں حجه الوداع سے چند سال پہلے فتح مکہ ہوا اس میں ابو جھل کی بیٹی سے علی رضی الله عنہ نے شادی کی خواہش کا اظہار اپنی بیوی فاطمہ رضی الله عنہا سے کیا اس پر فاطمه ناراض ہوئیں اور نبی صلی اللّہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا – رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس بات پسند نہیں آئی یہاں تک کہ اپ منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ دیا کہ الله کے رسول اور اس کے دشمن کی بیٹی جمع نہ ہوں گی اور میرے داماد ابو العاص نے جو وعدہ کیا اس کو پورا کیا
اس طرح اپ صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ دامادوں میں اپ کو سب سے زیادہ پسند ابو العاص رضی الله عنہ ہیں
یہ بات صحابہ نے بھی سنی اور بعض اغلبا یہ سمجھے کہ جب تک فاطمہ زندہ ہیں علی کوئی لونڈی بھی نہیں رکھ سکتے لہذا سن ١٠ ہجری میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ کو یمن بھیجا کہ وہاں جائیں اور خمس وصول کریں – علی رضی الله عنہ نے وہاں ایک لونڈی حاصل کی اس سے فائدہ اٹھایا أور لوگوں نے علی کو غسل کرتے دیکھا یعنی علی نے خمس میں سے مال خود لے لیا اور دیگر اصحاب رسول کے نزدیک اس کی تقسیم نبی صلی الله علیہ وسلم کرتے اور علی کو صبر کرنا چاہیے تھا – علی اس وفد کے امیر تھے باقی اصحاب نے اس پر علی سے اختلاف کیا یہاں تک کہ واپسی پر ایک صحابی نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو تمام صورت حال بتا دی جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم نے تبين كي- یہ واقعہ غدیر خم پر ہوا جب نبی صلی الله علیہ وسلم حج سے واپسی پر مدینہ جا رہے تھے اور علی اپنے وفد کے ساتھ اسی مقام پر نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملے
اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ
میں جس کا دوست اس کا علی دوست
یعنی ایک طرح علی رضی الله عنہ کی تعریف کی تاکہ جن اصحاب کو شکایات ہیں وہ جان لیں کہ امیر وفد کی حثیت سے اور اہل بیت میں ہونے کی وجہ سے لونڈی لینا علی کے لئے جائز تھا
بریدہ رضی الله عنہ سے رسول الله نے فرمایا کہ تو علی سے بغض نہ رکھ کیونکہ خمس میں اس کا اس سے زیادہ بھی حصہ ہے
صحیح بخاری
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ مَنْجُوفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا إِلَى خَالِدٍ لِيَقْبِضَ الخُمُسَ، وَكُنْتُ أُبْغِضُ عَلِيًّا وَقَدِ اغْتَسَلَ، فَقُلْتُ لِخَالِدٍ: أَلاَ تَرَى إِلَى هَذَا، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «يَا بُرَيْدَةُ أَتُبْغِضُ عَلِيًّا؟» فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «لاَ تُبْغِضْهُ فَإِنَّ لَهُ فِي الخُمُسِ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ»
مجھ سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف بن اسحاق بن ابی اسحاق نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن بھیجا، بیان کیا کہ پھر اس کے بعد ان کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور آپ نے انہیں ہدایت کی کہ خالد کے ساتھیوں سے کہو کہ جو ان میں سے تمہارے ساتھ یمن میں رہنا چاہے وہ تمہارے ساتھ پھر یمن کو لوٹ جائے اور جو وہاں سے واپس آنا چاہے وہ چلا آئے۔ براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جو یمن کو لوٹ گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے غنیمت میں کئی اوقیہ چاندی کے ملے تھے۔
/
حدیث نمبر: 4350
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ مَنْجُوفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا إِلَى خَالِدٍ لِيَقْبِضَ الْخُمُسَ، وَكُنْتُ أُبْغِضُ عَلِيًّا وَقَدِ اغْتَسَلَ، فَقُلْتُ لِخَالِدٍ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا ؟ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: “يَا بُرَيْدَةُ، أَتُبْغِضُ عَلِيًّا ؟”فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: “لَا تُبْغِضْهُ، فَإِنَّ لَهُ فِي الْخُمُسِ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ”.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن سوید بن منجوف نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے اور ان سے ان کے والد (بریدہ بن حصیب) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو (یمن) بھیجا تاکہ غنیمت کے خمس (پانچواں حصہ) کو ان سے لے آئیں۔ مجھے علی رضی اللہ عنہ سے بہت بغض تھا اور میں نے انہیں غسل کرتے دیکھا تھا۔ میں نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا تم دیکھتے ہو علی رضی اللہ عنہ نے کیا کیا (اور ایک لونڈی سے صحبت کی) پھر جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے آپ سے بھی اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا (بریدہ) کیا تمہیں علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بغض ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں، فرمایا علی سے دشمنی نہ رکھنا کیونکہ خمس (غنیمت کے پانچویں حصے) میں اس سے بھی زیادہ حق ہے۔
اس طرح اپ صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ دامادوں میں اپ کو سب سے زیادہ پسند ابو العاص رضی الله عنہ ہیں
یہ بات صحابہ نے بھی سنی اور بعض اغلبا یہ سمجھے کہ جب تک فاطمہ زندہ ہیں علی کوئی لونڈی بھی نہیں رکھ سکتے لہذا سن ١٠ ہجری میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ کو یمن بھیجا کہ وہاں جائیں اور خمس وصول کریں – علی رضی الله عنہ نے وہاں ایک لونڈی حاصل کی اس سے فائدہ اٹھایا أور لوگوں نے علی کو غسل کرتے دیکھا یعنی علی نے خمس میں سے مال خود لے لیا اور دیگر اصحاب رسول کے نزدیک اس کی تقسیم نبی صلی الله علیہ وسلم کرتے اور علی کو صبر کرنا چاہیے تھا – علی اس وفد کے امیر تھے باقی اصحاب نے اس پر علی سے اختلاف کیا یہاں تک کہ واپسی پر ایک صحابی نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو تمام صورت حال بتا دی جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم نے تبين كي- یہ واقعہ غدیر خم پر ہوا جب نبی صلی الله علیہ وسلم حج سے واپسی پر مدینہ جا رہے تھے اور علی اپنے وفد کے ساتھ اسی مقام پر نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملے
اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ
میں جس کا دوست اس کا علی دوست
یعنی ایک طرح علی رضی الله عنہ کی تعریف کی تاکہ جن اصحاب کو شکایات ہیں وہ جان لیں کہ امیر وفد کی حثیت سے اور اہل بیت میں ہونے کی وجہ سے لونڈی لینا علی کے لئے جائز تھا
بریدہ رضی الله عنہ سے رسول الله نے فرمایا کہ تو علی سے بغض نہ رکھ کیونکہ خمس میں اس کا اس سے زیادہ بھی حصہ ہے
صحیح بخاری
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ مَنْجُوفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا إِلَى خَالِدٍ لِيَقْبِضَ الخُمُسَ، وَكُنْتُ أُبْغِضُ عَلِيًّا وَقَدِ اغْتَسَلَ، فَقُلْتُ لِخَالِدٍ: أَلاَ تَرَى إِلَى هَذَا، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «يَا بُرَيْدَةُ أَتُبْغِضُ عَلِيًّا؟» فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «لاَ تُبْغِضْهُ فَإِنَّ لَهُ فِي الخُمُسِ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ»
مجھ سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف بن اسحاق بن ابی اسحاق نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن بھیجا، بیان کیا کہ پھر اس کے بعد ان کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور آپ نے انہیں ہدایت کی کہ خالد کے ساتھیوں سے کہو کہ جو ان میں سے تمہارے ساتھ یمن میں رہنا چاہے وہ تمہارے ساتھ پھر یمن کو لوٹ جائے اور جو وہاں سے واپس آنا چاہے وہ چلا آئے۔ براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جو یمن کو لوٹ گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے غنیمت میں کئی اوقیہ چاندی کے ملے تھے۔
/
حدیث نمبر: 4350
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ مَنْجُوفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا إِلَى خَالِدٍ لِيَقْبِضَ الْخُمُسَ، وَكُنْتُ أُبْغِضُ عَلِيًّا وَقَدِ اغْتَسَلَ، فَقُلْتُ لِخَالِدٍ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا ؟ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: “يَا بُرَيْدَةُ، أَتُبْغِضُ عَلِيًّا ؟”فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: “لَا تُبْغِضْهُ، فَإِنَّ لَهُ فِي الْخُمُسِ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ”.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن سوید بن منجوف نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے اور ان سے ان کے والد (بریدہ بن حصیب) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو (یمن) بھیجا تاکہ غنیمت کے خمس (پانچواں حصہ) کو ان سے لے آئیں۔ مجھے علی رضی اللہ عنہ سے بہت بغض تھا اور میں نے انہیں غسل کرتے دیکھا تھا۔ میں نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا تم دیکھتے ہو علی رضی اللہ عنہ نے کیا کیا (اور ایک لونڈی سے صحبت کی) پھر جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے آپ سے بھی اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا (بریدہ) کیا تمہیں علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بغض ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں، فرمایا علی سے دشمنی نہ رکھنا کیونکہ خمس (غنیمت کے پانچویں حصے) میں اس سے بھی زیادہ حق ہے۔