Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

محبوبِ دو جہاں ﷺ کی امتیازی خوبیاں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • محبوبِ دو جہاں ﷺ کی امتیازی خوبیاں

    محبوب دو جہاں ﷺ کی امتیازی خوبیاں
    از:داعئی قرآن حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن شہید


    1.... تمام انبیاءورسل علیہم الصلوٰة والتسلیم سے اس بات کا عہد لیاگیا کہ اگر ان کی زندگی میں آپ ﷺ تشریف لے آئے تو آپ پر ایمان لانا، آپ کی اتباع ونصرت کرنا ان پر ضروری ہوگا۔
    نیز ان سے یہ بھی عہد لیا گیا کہ وہ اپنی امتوں سے بھی اس بات کا عہد لیں کہ حضور ﷺ کی بعثت کی صورت میں آپ پر ایمان لاکر آپ کی اتباع ونصرت ان پر لازمی ہوگی۔ اس معاہدہ پر عملدرآمد نہ کرکے اس کی مخالفت کرنے والا فاسق اور نافرمان شمار ہوگا۔
    اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    "واذ اخذاﷲ میثاق النبیین لمااٰتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاءکم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ قال أقررتم وأخذتم علی ذٰلکم اصری قالوا أقررنا قال فاشہدوا وأنا معکم من الشاھدین۔ فمن تولی بعد ذلک فأولئک ھم الفٰسقون"۔
    یہی وجہ ہے کہ ہر نبی اور رسول آپ ﷺکے زمانہ بعثت مقام بعثت اور مقام ہجرت آپ کے اوصاف وعلامات کے بارے میں علم رکھتا تھا۔
    آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام کا خمیر گوندھا جارہا تھا، اور میں تمہیں اپنی شروع کی بات بتاتا ہوں کہ میں (دعاءخلیل اور نویدمسیحا) ابراہیم علیہ السلام کی دعا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کے اس خواب کی تعبیر ہوں جوکہ اس نے مجھے جنتے وقت دیکھا تھا کہ اس سے ایسا نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات منور ہوگئے ہیں۔
    حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا اس آیت قرآنی میں تذکرہ موجود ہے:۔
    "ربناوابعث فیہم رسولا منہم یتلواعلیہم آیاتہ ویزکیہم و یعلمہم الکتاب والحکمہ"۔
    اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت مندرجہ ذیل آیت قرآنی میں مذکور ہے:
    " واذقال عیسی ابن مریم یٰبنی اسرائیل انی رسول اﷲ الیکم مصدقالما بین یدی من التوراۃ ومبشراًبرسول یأتی من بعدی اسمہ أحمد"۔
    آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:"لوکان موسیٰ حیا لما وسعہ الااتباعی" کہ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی آج زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر چارۂ کار نہ ہوتا۔
    2.... آپ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے ہی آپ کے بارے میں اہل کتاب جانتے تھے۔ اہل کتاب آپ کے بارے میں، آپ کے مقام بعثت اور مقام ہجرت کے بارے میں بھی جانتے تھے بلکہ آپ کی امت کے اوصاف بھی ان کی کتابوں میں موجود تھے تاکہ انکار کی صورت میں ان کے لئے کوئی حجت یا دلیل باقی نہ رہے۔اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    "وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاءھم ماعرفوا کفروابہ"۔
    دوسری جگہ پر ارشاد گرامی ہے:"الذین یتبعون الرسول النبی الأمی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراة والانجیل یأمرھم بالمعروف وینہاھم عن المنکر"۔
    اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:"الذین اٰتیناھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناءھم"۔
    چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمروؓ کی حدیث میں ہے جب کہ ان سے پوچھا گیا انہوں نے کہا: جی ہاں۔ اﷲ کی قسم! تورات میں ان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں سے بعض قرآن کریم میں بھی موجود ہیں:
    "یاایھاالنبی انا ارسلناک شاھد اومبشرا ونذیرا"۔
    آدمیوں کے لئے جائے پناہ تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو منہ چڑھا اور سخت مزاج نہیں، اور بازاروں میں چلاّنے والا، اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا بلکہ عفوودرگذر کرتا ہے۔ اسے اﷲ تعالیٰ اس وقت تک قبض نہیں کریں گے جب تک کہ ان کے ذریعہ بے تکی امت کو راہ راست پر نہ لے آئیں۔ اس طرح پر کہ وہ لاالہ الا اﷲ کہہ دیں جس سے اﷲ تعالیٰ اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور دلوں کے پردوں کو کھول دیں۔
    حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے جب عموریہ کے پادری سے اس کے مرض الوفاۃ میں پوچھا کہ اب میرے لئے کیا وصیت ہے میں اپنی زندگی کس کے پاس گزاروں تو اس نے کہا:
    میرے بیٹے! اب دنیا میں تو کوئی ایسا شخص نہیں رہا جس کے پاس رہنے کی تجھے وصیت کروں البتہ اس نبی کا زمانہ قریب آچکا ہے جو کہ دین ابراہیمی کو لیکر آئے گا سرزمین عرب میں وہ مبعوث ہوگاوہ ایسے شہر میں ہجرت کرکے آئے گا جو کہ دوپہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہوگا اور ان کے درمیان کھجوروں کے درخت ہوں گے۔ اس کی کچھ نشانیاں جو چھپائے نہیں چھپ سکیں گی وہ ہدیہ وصول کرے گا لیکن صدقہ کا مال نہیں کھائے گا اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان میں نبوت کی مہر ہوگی۔ پس اگر تو اس علاقہ میں جاسکے تو وہاں پہنچ جا۔
    3.... آپ کو اس وقت نبوت مل چکی تھی جبکہ آدم علیہ السلام کا ابھی خمیر تیار ہورہا تھا۔
    حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی گارے مٹی میںلتھڑے ہوئے تھے۔
    حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ آپ نبی کب بنائے گئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اس وقت نبوت مل چکی تھی جبکہ آدم علیہ السلام کا جسد عنصری ابھی روح سے خالی تھا۔ (کہ جسدعنصری میں ابھی تک روح بھی نہیں پھونکی گئی تھی۔)
    4.... سب سے پہلے مسلمان:حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سب سے پہلے مسلمان ہیں۔ قرآن کریم میں آپ کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے:
    "قل اغیراﷲ اتخذولیا فاطر السماوات والارض وھویطعم ولایطعم قل انی امرت ان اکون اول من اسلم ولاتکونن من المشرکین"۔
    "آپ(ﷺ) انہیں بتادیجئے کہ میں آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے کے سوا کسی دوسرے کو کیسے اپنا کرتا دھرتا تصور کرسکتا ہوں۔ حالانکہ وہ دوسروں کو کھلاتا ہے اسے کھلایا نہیں جاتا۔ آپ انہیں بتائیے کہ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں اسلام لانے والوں میں پہلا شخص ہوں اور آپ مشرکوں میں سے ہرگز نہ بنیں"۔
    قل ان صلوٰتی ونسکی ومحیای ومماتی اﷲ رب العالمین لاشریک وبذالک امرت وانا اول المسلمین۔
    "آپ کہیں کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جےنا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کےلئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان شخص ہوں ۔"
    5.... آپ ﷺپر اﷲ تعالیٰ نے نبوت ختم کردی جس طرح آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کے بعد ادیان سماویہ کا سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچا اسی طرح انبیا ءورسل کا سلسلہ آپﷺ پر ختم ہوا۔
    قرآن کریم میں ارشاد باری ہے:

    "ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین"۔
    "محمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام تم میں سے کسی شخص کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں"۔
    حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ حضوراکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاءعلیہم السلام کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک عمارت بنائی اور اس میں حسن وجمال پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اس مکان کو دیکھنے کے لئے آنے لگے اور اس کی خوبصورتی کی تعریف کرنے لگے مگر اس اینٹ کی خالی جگہ پر جس کی بھی نگاہ پڑتی تو وہ کہتا کہ یہ جگہ کیوں چھوڑ دی گئی؟ میں وہی اینٹ ہوں۔ میں خاتم النبیین ہوں (میں نے آکر انبیاءکا سلسلہ ختم کردیا)
    6.... حضور علیہ السلام تمام انبیاءعلیہم السلام کے ان کی امتوں سے بھی زیادہ قریب ہیں(اولیٰ ہیں)
    یہودونصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ ا ن کا ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ تعلق ہے۔ اﷲ رب العزت نے اس کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ ابراہیم علیہ السلام کا قرب، محمد علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کو حاصل ہے:
    ماکان ابراہیم یہودیا ولانصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وماکان من المشرکین۔ ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ وھذا النبی والذین آمنوا واللہ ولی المؤمنین۔
    جب آپ ﷺ ابوالانبیاءابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب، آپ سے زیادہ تعلق رکھنے والے ہیں تو باقی انبیاءسے جو کہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں منطقی طور پر آپ کا تعلق اور قرب ثابت ہوا۔
    حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے زیادہ قرب اور تعلق رکھتا ہوں دنیا وآخرت میں۔
    ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودی عاشورا کا روزہ رکھتے تھے ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر غلبہ حاصل ہوا تھا اس لئے اس دن کے احترام میں ہم روزہ رکھتے ہیں تو حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریبی ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار اور قریبی ہیں۔
    7.... حضور علیہ الصلوٰة والسلام مؤمنین پر ان کی ذات سے بھی زیادہ استحقاق رکھتے ہیں۔ آپ کی ازواج مطہرات مؤمنین کی مائیں ہیں او ران کا نکاح کسی بھی امتی کے ساتھ جائز نہیں ہے:
    النبی اولی بالمؤمنین من انفسہم وازواجہ امہاتہم۔
    نبی کریم علیہ السلام مؤمنین سے ان کی ذات سے بھی زیادہ قریب اور ان پر استحقاق رکھتے ہیں اور آپ کی بیویاں مؤمنین کی مائیں ہیں۔اﷲ رب العزت کا فرمان ہے:
    "وماکان لکم ان تؤذوا رسول اﷲ ولاان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا۔ ان ذلکم کان عنداﷲ عظیما"۔
    "تم لوگوں کو اس بات کی اجازت نہیں کہ تم رسول اﷲ ﷺ کی دل آزاری کرو اور نہ ہی اس بات کی اجازت ہے کہ آپ کی بیویوں سے کبھی نکاح کرو۔ اﷲ کے ہاں یہ بہت بڑا (جرم) ہے"۔
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں ہر مؤمن کا ولی ہوں دنیا وآخرت میں اور اس کی دلیل کے طور پر قرآنی آیت" النبی اولی بالمؤمنین من انفسہم" پڑھی۔
    یہی وجہ ہے کہ آپ مؤمنین پر رحمت وشفقت بہت فرماتے تھے اور مؤمنین کے حالات سے متاثر ہوکر ان پر ترس کھاتے اور معاملات کا لحاظ بھی زیادہ کرتے تھے:
    "لقدجاءکم رسول من انفسکم عزیزعلیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم"۔
    8....آپ سراپا انعام الہٰی ہیں اور اس بات کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جتلایا ہے اور دوسرے کسی نبی کے بارے میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے:
    لقدمن اﷲ علیٰ المؤمنین........ ھوالذی بعث فی الامیین....
    9.... آپ مخلوق میں سب سے افضل اور تمام اولاد آدم کے سردار ہیں۔ اﷲ رب العزت نے آپ ﷺ کو تمام مخلوق میں اعلیٰ مرتبے کے لئے منتخب فرمایا اور اپنی محبوبیت کے درجے پر فائز فرمایا آپ کو رسولِ انسانیت بناکر انبیاءعلیہم السلام کی امامت اور اولادِآدم کی سرداری کا تاج آپ کے سرپر رکھا۔
    حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب کیا اور اولادِ اسماعیل میں سے کنانہ کو منتخب فرمایا اور کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ھاشم کو اور بنی ھاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا۔
    حضرت ابوسعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "اناسیدولد آدم ولافخر"۔
    "میں اولادِ آدم کا سردار ہوں مگر میں اس پر کوئی بڑائی نہیں دکھاتا"۔
    حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اے میرے رب! آپ نے مجھے اولادِآدم کا سردار بناکر پیدا کیا جس پر میں کوئی بڑائی نہیں جتلاتا۔
    10.... آپ ﷺ کی اطاعت اور آپ ﷺ کی بیعت کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور بیعت قرار دیا، اور جہاں اپنی اطاعت کا حکم دیا اس کے ساتھ ہی آپ ﷺکی اطاعت کا بھی حکم دیا اور آپ ﷺ کی اتباع کو اپنی محبت کا سبب اور ذریعہ قرار دیا۔اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    "من یطع الرسول فقد اطاع اﷲ "
    "جو رسول علیہ السلام کی اطاعت کرے گا وہ درحقیقت اﷲ کی اطاعت کرے گا۔"
    اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: جو لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں وہ دراصل اﷲ تعالیٰ سے
    بیعت کررہے ہیں۔
    اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: آپ ان سے کہیے کہ اگر تم اﷲ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو (جس کے نتیجہ میں) اﷲ تعالیٰ تم سے محبت کریں گے اور تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور اﷲ تعالیٰ غفورالرحیم ہے۔
    11.... آپ ﷺرحمۃ اللعالمین ہیں۔آپ ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے تمام عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے چنانچہ آپ جیسے مسلمانوں کے لئے رحمت ہیں ویسے ہی کافر بھی آپ کی رحمت اللعالمینی سے مستفید ہیں۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے: وماارسلناک الارحمۃ للعالمین
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے:یاایھا الناس انماانا رحمۃ مہداۃ "اے انسانو! میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اہل عالم کے لئے عنایت فرمودہ رحمت ہوں"۔
    ایمان والوں کے لئے توآپ خصوصیت کے ساتھ رؤف ورحیم ہیں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:" ولقدجاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤوف رحیم"۔
    امت مسلمہ کی موجودگی میں آپ ﷺکااس دارفانی سے کوچ کرجانا بھی اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کی دلیل ہے۔
    حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایاکہ اﷲ تعالیٰ جب کسی امت پر رحم فرمانا چاہتے ہیں تو اس امت کے ختم ہونے سے پہلے ہی اس کے نبی کو اٹھا لیتے ہیں اور اسے امت کا پیش رو اور فرستادہ بنادیتے ہیں اور جب کسی امت کی ہلاکت کا فیصلہ فرماتے ہیں تو اسے نبی کو جھٹلانے اور مخالفت کرنے کی پاداش مےں ختم کردیتے ہیں تاکہ نبی کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سرور کا سامان بن سکے۔
    آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری زندگی تمہارے لئے بہتر ہے۔ تم مجھ سے گفتگو کرلیتے ہو اور میں تم سے اور میری وفات تمہارے لئے بہتر ہے کہ تمہارے اعمال میرے سامنے پیش کئے جائیں گے چنانچہ تمہارے اچھے اعمال کو دیکھ کر میں اﷲ تعالیٰ کی حمدوثنا کروں گا اور اگر کوئی غلط عمل دیکھوں گا تو اس پر استغفار کروں گا۔
    12.... آپ ﷺ کی رسالت کی عمومیت :آپ ﷺکی رسالت کو اﷲ تعالیٰ نے صرف انسانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ تمام جہانوں کے لئے عام کردیا جبکہ آپ ﷺسے پہلے انبیاءعلیہم السلام مخصوص اقوام کی طرف مبعوث ہوا کرتے تھے۔
    اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے بشیرونذیر بناکر بھیجا ہے۔
    دوسری جگہ فرمان ہے کہ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔
    آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں:
    (۱) ہر نبی اپنی قوم کے لئے خاص طور پر مبعوث ہوتا تھا اور میں ہر کالے اور گورے کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔
    (۲) میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیا جبکہ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے حلال نہیں کیا گیا۔
    (۳) میرے لئے روئے زمین کو طہارت اور پاکیزگی کا ذریعہ اور سجدہ گاہ بنادیا گیا۔ چنانچہ زمین کے کسی بھی خطہ میں کسی بھی شخص کو نماز کا وقت آجائے تو وہ جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔
    (۴) ایک مہینہ کی مسافت سے دشمن پر میرا رعب ڈال دیا گیا۔
    (۵) مجھے شفاعت کرنے کا حق دیا گیا۔
    13.... آپ ﷺکی عظمت شان اور بلندی مرتبہ کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ آپ ﷺکی حفاظت کی ذمہ داری اﷲ رب العزت نے خود لی ہے نیز استہزاءوتمسخر کرنے والوں سے دفاع کی ذمہ داری بھی لی ہے تاکہ یہ لوگ آپ ﷺکو کسی قسم کی گزند نہ پہنچا سکیں۔
    اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: اے رسول! جو پیغام تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا اور اﷲ تعالیٰ لوگوں سے آپ کی حفاظت کریں گے۔
    بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اس آیت کے نزول سے پہلے آپ ﷺکی حفاظت پر مامور تھے۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ ﷺ نے ان صحابہ کو سبکدوش کردیا کہ اﷲ تعالیٰ نے غیبی نظام کے تحت آپ ﷺکی حفاظت کا انتظام کردیا۔دوسری جگہ ارشاد ہے:" فاصدع بماتؤمر".... الخ
    ایک اور جگہ فرمان ہے:" واصبرلحکم ربک فانک باعیننا"۔
    14.... آپ ﷺکے لائے ہوئے دین کی حفاظت کا ذمہ بھی اﷲ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے دین اسلام کوتغےیروتبدیل وتحریف سے حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ نیز اس کی بقاءکا ذمہ بھی اﷲ تعالیٰ نے لیا ہے۔ اور غالباً یہی راز ہے کہ آپ سے پہلے ادیان ومذاھب تحریف وتبدیل کا شکار ہوتے رہے تاکہ دین اسلام کی ضرورت برقرار رہے اور جب دین آگیا تو اسکی حفاظت اﷲ رب العزت نے اپنے ذمہ لے لی تاکہ دنیا میں آپ ہی کا لایا ہوا دین صحیح سالم باقی رہے اور آپ ہی کا لایا ہوا دین دنیا کے دوسرے نظاموں کو رہتی دنیا تک چیلنج کرتا رہے:"انانحن نزلنا الذکروانالہ لحافظون"۔
    اور یہ آپ ﷺکا معجزہ خالدہ ہے کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب قیام قیامت تک بحفاظت تمام باقی رہے گی جبکہ پہلے انبیاءکی نہ کتب رہیں اور نہ ہی ان کے ادیان باقی رہے۔
    15.... آپ ﷺکی زندگی کی قسم کھائی گئی ہے۔اﷲرب العزت نے قرآن کریم میں آپ ﷺ کی زندگی کی قسم کھائی ہے جبکہ یہ بات کسی دوسرے نبی کے لئے ثابت نہیں۔
    اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:"لعمرک انہم لفی سکرتہم یعمہون"۔
    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی کی زندگی کی قسم نہیں کھائی سوائے محمد علیہ الصلوٰة والسلام کے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے: لعمرک انہم لفی سکرتہم یعمہون۔
    16.... شب معراج میں تمام انبیاءکی امامت کی۔
    17.... آپ ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے ذاتی اور شخصی نام کی بجائے صفاتی ناموں سے خطاب کیا جو کہ محبوب کی نازبرداری اور نبی کے اعلیٰ درجے پر احترام کا مظہر ہے۔

    بشکریہ: سہ ماہی مجلہ ندائے حرمین کراچی



Working...
X