تحریر: انعام الحق
یہ بلاگ پاکستان کی آبادی میں ہونے والے دھماکہ خیز اضافے کے بارے میں ہے۔ ملک کی مردم شماری کے نتائج پر آنے والا ردعمل حیران کن ہے۔ پاکستان کی موجودہ آبادی 207 ملین ہو چکی ہے جبکہ اس کی سالانہ شرح نمو2.4فیصد ہے۔ مردم شماری کے بارے میں ایسے نتائج کی ہی توقع کی جا رہی تھی کیونکہ پاکستان نے پچھلے ایک عشرے سے آبادی سے متعلق بڑے پیمانے پر اقدامات نہیں کیے۔ہمیں نتائج کی یہ ہی توقع کرنی چاہیے کیونکہ اقدامات نہ کرنے سےنتائج نہیں ملتے۔
پاکستان میں آبادی کے شرح نمو اور بارآوری کو کم کرنے کے لیے بڑےپیمانے پر کوششوں کا آغاز 90 کی دہائی میں ہواتھا۔ 1990سے 2006 تک کے عرصے میں سوشل ایکشن پروگرام کے تحت موثر پالیسی سازی نظر آتی ہے، اس عرصے میں مختلف اقدامات شروع کیے گئے جن میں عوامی سہولیات کی فراہمی میں اضافہ، سوشل مارکیٹنگ کے نت نئے طریقوں سمیت بڑے پیمانے پر نجی شعبے کی شمولیت اور سماجی انتظامات کے تحت کمیونٹی ورکرز کے ذریعے خواتین تک رسائی کے پروگرام شامل تھے۔ ان تمام اقدامات کی بدولت بہتر نتائج دیکھنے کو ملے۔ بارآوری کی شرح فی عورت 7 سے کم ہو کر 4 بچے تک رہ گئی، اور مانع حمل اشیا ءکا استعمال 10 فیصد سے بڑھ کر30 فیصد ہو گیا یعنی 300 فیصد کا اضافہ۔مناسب اقدامات کی بدولت بہتر نتائج برآمد ہوئے لیکن ان میں سےبعض اقدامات کو اب بھی موجودہ حالات میں بہتری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان اقدامات پر سست روی کا آغاز 2006 سے ہوا اور آنے والے عشرے میں مکمل بے عملی چھائی رہی۔ سرکاری اور نجی شعبے کے اقدامات جمود کا شکار ہو گئے، کمیونٹی ورکرز کی خدمات کی فراہمی بہت کم ہو گئی اور کوئی نیا اور جدید نظریہ نہ ہونے کے باعث یہ سارا عمل ہی سست روی کا شکار ہو گیا۔ ان تمام عوامل کی بدولت آبادی تیزی سے بڑھتی رہی۔ بارآوری میں معمولی کمی ہوئی اور مانع حمل اشیا ء کے استعمال میں اضافہ تھم گیا جس سےپاکستان مشکلات کا شکار ہوگیا ۔سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی میں اس وقت نوجوان افراد کی تعداد زیادہ ہے جو کام کرنے کی عمر میں ہیں۔ اگر فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے اور آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو 2047 تک آبادی کی تعداد دوگنی ہو جائے گی۔ لیکن پاکستان معاشی ترقی کے باوجود اپنی آبادی کو سہولیات فراہم کرنے سے قاصر رہے گا۔
پاکستان کی قومی پیداوار بڑھ رہی ہے اور مستقبل میں بھی بڑھتی رہے گی۔ توقع ہے کہ فی کس آمدن 2015 میں 1000امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2050 میں 2283 ڈالر ہو جائے گی۔ اگر بارآوری کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2050 تک پاکستان کی آبادی 345 ملین ہو جائے گی یعنی فی عورت 2.8 بچے۔
تاہم اگرمناسب اقدامات پر موثر عملدرآمد ہوگیا اور پاکستان نے جنوبی ایشیا ءکی اوسط بارآوری کی شرح1.84 فی عورت تک حاصل کر لی تو 2050 تک اس ملک کی آبادی 276 ملین ہو گی اوراس کی فی کس آمدن 3214ڈالر ہوجائے گی۔لیکن اگریہ اقدامات نہ کیےگئے تو 2020 سے 2050 کے دوران پاکستان کو 2.3 ٹریلین ڈالر جی ڈی پی کا نقصان ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سالانہ 76 ارب ڈالر کا خسارہ ۔اس کے نتیجے میں پاکستان اور اس کے عوام پر اس کے سنجیدہ معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔
اس بات کا احساس پایا جاتا ہے کہ آبادی پر کنٹرول کے حوالے سے پاکستان مزید سست روی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس لیے حال ہی میں جو مثبت اقدامات خاص طور پر پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں کیے گئے ہیں جیسے خواتین کی تعلیم پر توجہ، ماں اور بچے کی صحت، غذائیت، مانع حمل اشیا ءکی فراہمی، نئی مانع حمل اشیا ءکی آمد، سہولیات کی فراہمی کے لیے خاص طور پر غریب طبقے تک رسائی، ان کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اقدامات کو تمام صوبوں میں تیزی سے مکمل طورپر پھیلایا جائے اور نوجوان طبقے کی بڑی آبادی کوتعلیم اورروزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں لیکن یہ فوائد خود بخود حاصل نہیں ہو جاتے بلکہ ان کے حصول کے لیے عملی محنت کرنا پڑتی ہے۔آبادی بڑھنے کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لیےبھی فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان "خاندانی منصوبہ بندی " جیسے اقدامات کواپنے ترقیاتی ایجنڈے میں شامل کرے، جدت پر مبنی سوچ اور روایتی طریقے سے ہٹ کر اقدامات کوآبادی کی پالیسی کا حصہ بنائے۔ یہ بھی لازم ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کی اشیاء اور خدمات کی مارکیٹ کو فعال بنانے کے لیے رقوم مہیا کی جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت رہنمائی کرے، مختلف شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے شواہد کی بنیاد پر اقدامات کیے جائیں، بالخصوص غریب طبقے تک رسائی کو ہدف بنا کر سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔
ضروری اقدامات میں مندرجہ ذیل شامل کیے جائیں:۔
یہ بلاگ پاکستان کی آبادی میں ہونے والے دھماکہ خیز اضافے کے بارے میں ہے۔ ملک کی مردم شماری کے نتائج پر آنے والا ردعمل حیران کن ہے۔ پاکستان کی موجودہ آبادی 207 ملین ہو چکی ہے جبکہ اس کی سالانہ شرح نمو2.4فیصد ہے۔ مردم شماری کے بارے میں ایسے نتائج کی ہی توقع کی جا رہی تھی کیونکہ پاکستان نے پچھلے ایک عشرے سے آبادی سے متعلق بڑے پیمانے پر اقدامات نہیں کیے۔ہمیں نتائج کی یہ ہی توقع کرنی چاہیے کیونکہ اقدامات نہ کرنے سےنتائج نہیں ملتے۔
پاکستان میں آبادی کے شرح نمو اور بارآوری کو کم کرنے کے لیے بڑےپیمانے پر کوششوں کا آغاز 90 کی دہائی میں ہواتھا۔ 1990سے 2006 تک کے عرصے میں سوشل ایکشن پروگرام کے تحت موثر پالیسی سازی نظر آتی ہے، اس عرصے میں مختلف اقدامات شروع کیے گئے جن میں عوامی سہولیات کی فراہمی میں اضافہ، سوشل مارکیٹنگ کے نت نئے طریقوں سمیت بڑے پیمانے پر نجی شعبے کی شمولیت اور سماجی انتظامات کے تحت کمیونٹی ورکرز کے ذریعے خواتین تک رسائی کے پروگرام شامل تھے۔ ان تمام اقدامات کی بدولت بہتر نتائج دیکھنے کو ملے۔ بارآوری کی شرح فی عورت 7 سے کم ہو کر 4 بچے تک رہ گئی، اور مانع حمل اشیا ءکا استعمال 10 فیصد سے بڑھ کر30 فیصد ہو گیا یعنی 300 فیصد کا اضافہ۔مناسب اقدامات کی بدولت بہتر نتائج برآمد ہوئے لیکن ان میں سےبعض اقدامات کو اب بھی موجودہ حالات میں بہتری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان اقدامات پر سست روی کا آغاز 2006 سے ہوا اور آنے والے عشرے میں مکمل بے عملی چھائی رہی۔ سرکاری اور نجی شعبے کے اقدامات جمود کا شکار ہو گئے، کمیونٹی ورکرز کی خدمات کی فراہمی بہت کم ہو گئی اور کوئی نیا اور جدید نظریہ نہ ہونے کے باعث یہ سارا عمل ہی سست روی کا شکار ہو گیا۔ ان تمام عوامل کی بدولت آبادی تیزی سے بڑھتی رہی۔ بارآوری میں معمولی کمی ہوئی اور مانع حمل اشیا ء کے استعمال میں اضافہ تھم گیا جس سےپاکستان مشکلات کا شکار ہوگیا ۔سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی میں اس وقت نوجوان افراد کی تعداد زیادہ ہے جو کام کرنے کی عمر میں ہیں۔ اگر فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے اور آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو 2047 تک آبادی کی تعداد دوگنی ہو جائے گی۔ لیکن پاکستان معاشی ترقی کے باوجود اپنی آبادی کو سہولیات فراہم کرنے سے قاصر رہے گا۔
پاکستان کی قومی پیداوار بڑھ رہی ہے اور مستقبل میں بھی بڑھتی رہے گی۔ توقع ہے کہ فی کس آمدن 2015 میں 1000امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2050 میں 2283 ڈالر ہو جائے گی۔ اگر بارآوری کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2050 تک پاکستان کی آبادی 345 ملین ہو جائے گی یعنی فی عورت 2.8 بچے۔
تاہم اگرمناسب اقدامات پر موثر عملدرآمد ہوگیا اور پاکستان نے جنوبی ایشیا ءکی اوسط بارآوری کی شرح1.84 فی عورت تک حاصل کر لی تو 2050 تک اس ملک کی آبادی 276 ملین ہو گی اوراس کی فی کس آمدن 3214ڈالر ہوجائے گی۔لیکن اگریہ اقدامات نہ کیےگئے تو 2020 سے 2050 کے دوران پاکستان کو 2.3 ٹریلین ڈالر جی ڈی پی کا نقصان ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سالانہ 76 ارب ڈالر کا خسارہ ۔اس کے نتیجے میں پاکستان اور اس کے عوام پر اس کے سنجیدہ معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔
اس بات کا احساس پایا جاتا ہے کہ آبادی پر کنٹرول کے حوالے سے پاکستان مزید سست روی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس لیے حال ہی میں جو مثبت اقدامات خاص طور پر پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں کیے گئے ہیں جیسے خواتین کی تعلیم پر توجہ، ماں اور بچے کی صحت، غذائیت، مانع حمل اشیا ءکی فراہمی، نئی مانع حمل اشیا ءکی آمد، سہولیات کی فراہمی کے لیے خاص طور پر غریب طبقے تک رسائی، ان کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اقدامات کو تمام صوبوں میں تیزی سے مکمل طورپر پھیلایا جائے اور نوجوان طبقے کی بڑی آبادی کوتعلیم اورروزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں لیکن یہ فوائد خود بخود حاصل نہیں ہو جاتے بلکہ ان کے حصول کے لیے عملی محنت کرنا پڑتی ہے۔آبادی بڑھنے کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لیےبھی فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان "خاندانی منصوبہ بندی " جیسے اقدامات کواپنے ترقیاتی ایجنڈے میں شامل کرے، جدت پر مبنی سوچ اور روایتی طریقے سے ہٹ کر اقدامات کوآبادی کی پالیسی کا حصہ بنائے۔ یہ بھی لازم ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کی اشیاء اور خدمات کی مارکیٹ کو فعال بنانے کے لیے رقوم مہیا کی جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت رہنمائی کرے، مختلف شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے شواہد کی بنیاد پر اقدامات کیے جائیں، بالخصوص غریب طبقے تک رسائی کو ہدف بنا کر سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔
ضروری اقدامات میں مندرجہ ذیل شامل کیے جائیں:۔
- پیدائش سے متعلق طبی سہولیات کی فراہمی کو ایک چھت تلے یکجا کیا جائے، سرکاری شعبے کی سہولیات کے لیے سوشل مارکیٹنگ کے طریقے استعمال کیے جائیں۔
- لڑکیوں کی تعلیم کو ترجیحات میں شامل رکھا جائے، لڑکیوں کے داخلوں، ثانوی سکولوں میں معیار کی بہتری کے ساتھ ساتھ خواتین کی معاشی خودمختاری پر توجہ دی جائے، اس کے لیے خواتین کی صلاحیتوں میں اضافہ، کاروباری ملکیت اور جامع معاشی اقدامات بھی ضروری ہیں۔
- نجی شعبے کی مارکیٹ کو وسعت دینے کے لیے سرکاری فنڈز کے استعمال میں اضافہ کیا جائے، خاندانی منصوبہ بندی کی اشیاء تیار کرنے والے مقامی کمپنیوں کو رعایت او رمراعات دی جائیں تاکہ مذکورہ اشیاء سستی ہوں اور فراہم کنندگان اور صارفین اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
- اعلیٰ ثانوی سکولوں میں زندگی گزارنے کی مہارتیں سکھانے کے ساتھ ساتھ رویوں میں تبدیلی کی مہمات شروع کرنے کے لیےبھی فنڈز دیئے جائیں۔
- غریب طبقے تک رسائی کو ہدف بنا کر سماجی تحفظ کا نظام شروع کیا جائے۔