ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار
اے مری روشنہ طبع مجھ کو اور سنوار
نشاط ِ رنج ہو رنج ِ نشاط ہو کچھ ہو
حیات رقص ہے وحشت کا اور دائرہ وار
اُسی کا نام محبت ہوا زمانے میں
وہ اک نشہ کہ سیکھا نہیں ہے جس نے اتار
میں اعتراف ِ شکست بہار کر لوں گا
ذرا اڑے تو سہی بوئے زلف ِ عنبر یار
رہ وفا میں چلو پھر سے اجنبی بن جائیں
کہ ڈھل رہا ہے پرانی محبتوں کا خمار
اس ایک قطرہ خوں کا ہے نام شعر علیم
جو دل میں ہو تو خزاں اور ٹپک پڑے تو بہار
:rose