خورشید بکف کوئی کہاں ہے
سب اپنی ہی روشنی جاں ہے
میں بھی تو ادھر ہی جا رہا ہوں
مجھ کو بھی تلاش ِ رفتگاں ہے
پھر دیکھنا خواب عہد رفتہ
مل لو ابھی وقت مہرباں ہے
سودا بھی کرو تو کیا کہ دنیا
باہر سے سجی ہوئی دکاں ہے
شعلے کو خبر ہی کیا نمو میں
اپنے ہی وجود کا زیاں یے
ہرلحظہ بدل رہی ہے دنیا
ہر پل کوئی خواب رائیگاں ہے
لیتا ہی نہیں کہیں پڑاو
یادوں کا عجیب کارواں ہے
مانا کہ جدا نہیں ہیں ہم تم
پھر بھی کوئی فصل درمیاں ہے
اے ابر بہارِ نو برس بھی
پھر تازہ ہجوم ِ تشنگاں ہے
اے موج ِ فنا گزر بھی سر سے
ہونے کا مجھے بہت گماں ہے
:rose