سب چھاؤں دھوپ کی آنکھیں ہیں کچھ جلی ہوئی کچھ بجھی ہوئی
اِدھر اُدھر بس اک دیا اور چپ چادر سی تنی ہوئی
باطن ظاہر ،ظاہر باطن اصل میں ایک ہی لمحہ ہے
کچھ ہونے والا ہو گزرا ،کچھ ہونے والا ہونا ہے
عکس بھی زندہ اور ہماری آوازیں بھی زندہ ہیں
اس مرنے سے کیا ہوتا ہے آگے ہم پائندہ ہیں
پیچھے کتنا رستہ چھوڑا آگے کتنا رستہ ہے
سمے میں بہتے اے ہیں اور سمے میں بہتے رہنا ہے
اس سمے کے چھ پَل بیت گیے اس سمے کا اک پل باقی ہے
بس یہ اک پل جو بیت گیا تو پھر ہستی آفاقی ہے