دنیا! میں تجھ سے تنگ ہوں ، میرا مکان چھوڑ
چل چھوڑ ، تو ہی ٹھیک سہی، میری جان چھوڑ
کچھ واجبات رزق کے ، کچھ قرض عشق کے
اے دل ! یہ سب حساب چکا ، اور دکان چھوڑ
ہے یوں کہ یہ جہان ترے بس کا ہے نہیں
اب اپنا خواب دان اٹھا، خاک دان چھوڑ
اے شاہ ! تو نے آ کے مری دھوپ روک لی
میری زمین چھوڑ ، مرا آسمان چھوڑ
جھوٹ اور سچ کے بیچ کا مسکن کوئی نہیں
ہر مصلحت سے جان چھڑا ، درمیان چھوڑ
یہ عشق بے امان سہی ، میری جان ہے
تو جانتا نہیں ہے مرا امتحان ، چھوڑ
وہ یادِ بے پناہ تعاقب میں آئی ہے
کتنا کہا تھا تجھ سے ، مت اپنا نشان چھوڑ
سعود عثمانی
parveen shakir