کھدائی کو کھنڈر کوئی نہیں ہے
اب اِس مٹی میں زر کوئی نہیں ہے
خیالوں میں یہ کس کی دستکیں ہیں
اگر بیرونِ در کوئی نہیں کوئی نہیں ہے
وہاں لوگوں کے کیا دُکھ درد ہونگے
جہاں اب نوحہ گر کوئی نہیں ہے
کسے ہے بات کہنے کا سلیقہ
اگر چہ بے ہنر کوئی نہیں ہے
جِدھر چاہو نکل جاؤ سفر کو
فصیلِ بحر و بر کوئی نہیں ہے
میں کیوں اب گھر کی تختی پر نہ لکھ دوں
یہاں صابر ظفر کوئی نہیں ہے
اب اِس مٹی میں زر کوئی نہیں ہے
خیالوں میں یہ کس کی دستکیں ہیں
اگر بیرونِ در کوئی نہیں کوئی نہیں ہے
وہاں لوگوں کے کیا دُکھ درد ہونگے
جہاں اب نوحہ گر کوئی نہیں ہے
کسے ہے بات کہنے کا سلیقہ
اگر چہ بے ہنر کوئی نہیں ہے
جِدھر چاہو نکل جاؤ سفر کو
فصیلِ بحر و بر کوئی نہیں ہے
میں کیوں اب گھر کی تختی پر نہ لکھ دوں
یہاں صابر ظفر کوئی نہیں ہے