اے وقت کے امام کہیں میں نہ چل بسوں
کر مُجھ سے کُچھ کلام کہیں میں نہ چل بسوں
تیری نہیں ہے بات مرا مسئلہ ہے یہ
تُجھ کو تو ہے دوام کہیں میں نہ چل بسوں
اب ایسے چل چلاؤ میں رُکنا محال ہے
دعوت ہے اتنی عام کہیں میں نہ چل بسوں
گردش میں آ گیا ہے یہ پارا دماغ کا
کُچھ دیر مُجھ کو تھام کہیں میں نہ چل بسوں
رخشِ خیال ہے کہ تری روشنی کے پاس
پھرتا ہے بے لگام کہیں میں نہ چل بسوں
پہلے تو اسمِ خاک سے زندہ رہا ہوں میں
اب پڑھ کے تیرا نام کہیں میں نہ چل بسوں
سر پر لٹک رہی ہے مگر گرتی کیوں نہیں
شمشیر بے نیام! کہیں میں نہ چل بسوں
اب اپنے چاک پر بھی نظر ڈال کوزہ گر
میں رہ گیا ہوں خام ، کہیں میں نہ چل بسوں
کر مُجھ سے کُچھ کلام کہیں میں نہ چل بسوں
تیری نہیں ہے بات مرا مسئلہ ہے یہ
تُجھ کو تو ہے دوام کہیں میں نہ چل بسوں
اب ایسے چل چلاؤ میں رُکنا محال ہے
دعوت ہے اتنی عام کہیں میں نہ چل بسوں
گردش میں آ گیا ہے یہ پارا دماغ کا
کُچھ دیر مُجھ کو تھام کہیں میں نہ چل بسوں
رخشِ خیال ہے کہ تری روشنی کے پاس
پھرتا ہے بے لگام کہیں میں نہ چل بسوں
پہلے تو اسمِ خاک سے زندہ رہا ہوں میں
اب پڑھ کے تیرا نام کہیں میں نہ چل بسوں
سر پر لٹک رہی ہے مگر گرتی کیوں نہیں
شمشیر بے نیام! کہیں میں نہ چل بسوں
اب اپنے چاک پر بھی نظر ڈال کوزہ گر
میں رہ گیا ہوں خام ، کہیں میں نہ چل بسوں