ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کِس سے بولیے
میں جانتی تھی، پال رہی ہوں سنپولیے!
بس یہ ہُوا کہ اُس نے تکلّف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے
پلکوں پہ کچی نیندوں کا رَس پھیلتا ہو جب
ایسے میں آنکھ دھُوپ کے رُخ کیسے کھولیے
تیری برہنہ پائی کے دُکھ بانٹتے ہُوئے
ہم نے خُود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھو لیے
میں تیرا نام لے کے تذبذب میں پڑ گئی
سب لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو رو لیے!
’’خوشبو کہیں نہ جائے‘‘ یہ اصرار ہے بہت
اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زُلف کھولیے
تصویر جب نئی ہے ، نیا کینوس بھی ہے
پھر طشتری میں رنگ پُرانے نہ گھولیے
parveen shakir