عذاب اپنے بکھیروں کہ مُرتسم کر لوں
میں ان سے خود کو ضرب دُوں کہ منُقسم کر لوں
میں آندھیوں کی مزاج آشنا رہی ہوں مگر
خُود اپنے ہاتھ سے کیوں گھر کو منہدم کر لوں
بچھڑنے والوں کے حق میں کوئی دُعا کر کے
شکستِ خواب کی ساعت محتشم کر لوں
بچاؤ شیشوں کے گھر کا تلاش کر ہی لیا
یہی کہ سنگ بدستوں کا مُنصرم کر لوں
میں تھک گئی ہوں اِس اندر کی خانہ جنگی سے
بدن کو ’’سامرا‘‘ آنکھوں کو ’’معتصمِ‘‘ کر لوں
مری گلی میں کوئی شہر یار آتا ہے
ملا ہے حکم کہ لہجے کو محترم کر لوں
parveen shakir