لازم تھا اب کہ ذوقِ تماشا کو دیکھتی
کب تک تمہاری آنکھ سے دُنیا کو دیکھتی
طوفان کے جلو میں میری بے بضاعتی
بستی کو دیکھتی کبھی دریا کو دیکھتی
بس دھوپ اور ریت ہے اور پیاس کا سفر
کیا دل کے سامنے کسی صحرا کو دیکھتی
اُس چشمِ سرد مہر کے سب رنگ دیکھ کر
کیا اشتیاقِ عرضِ تمنّا کو دیکھتی
اُس شہرِ بے نیاز میں جب تک رہا قیام
حسرت رہی کہ چشمِ شناسا کو دیکھتی
پروین شاکر