ھم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ہر خواہش
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے بہ جائے
چاہے اب مکینوں پر گھر کی ساری دیواریں
چھت سمیت گر جایں
اور بے مقدر ھم
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جایں
تم سے کچھ نہیں کہنا
کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نیند والی آنکھوں پر
نرم خو سے خوابوں پر
کیوں عذاب ٹوٹے ہیں
تم سے کچھ نہیں کہنا
گھر گئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ھیں کب عذاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عذابوں سے بچ کےبھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں
ھم نے سوچ رکھا ہےتم سے کچھ نہیں کہنا
(نوشی گیلانی)