بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے
میں ہی بس ہوتا ہوں اُس کی ہر ادا کے سامنے
تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سُونا کر گئی!
دیر تک بیٹھا رہا میں اُس ہوا کے سامنے
رات اِک اُجڑے مکاں پر جا کے جب آواز دی
گونج اُٹھّے بام و دَر میری صدا کے سامنے
وہ رنگیلا ہاتھ میرے دل پہ اور اُس کی مہک
شمعِ دل بُجھ سی گئی رنگِ حنا کے سامنے
میں تو اس کو دیکھتے ہی جیسے پتھر ہو گیا
بات تک منہ سے نہ نکلی، بےوفا کے سامنے
یاد بھی ہیں اے منیرؔ اُس شام کی تنہائیاں
ایک میداں، اِک درخت اور تُو خُدا کے سامنے