شام آئی ہے شراب تیز پینا چاہیے
ہو چُکی ہے دیر اب زخموں کو سینا چاہیے
مر گئے تو پھر کہاں ہے حُسنِ رازِ زندگی
زخمِ دل گہرا بہت ہے پھر بھی جینا چاہیے
آج وہ کس دھج سے سیرِ گُلستاں میں محو ہے
چھُپ کے اُس کے ہاتھ سے وہ پھول چھینا چاہیے
اَبر ہو چھایا ہوا اور باغ ہو مہکا ہوا
گود میں گُلفام ہو اور پاس مینا چاہیے
جا بجا میلے لگے ہیں لال ہونٹوں کے منیر
تیرگی میں دیکھنے کو چشمِ بینا چاہیے