جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو چلانے آ جاتے ہیں
دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھُپ رہتے ہیں
شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے آ جاتے ہیں
جن لوگوں نے اُن کی طلب میں صحراؤں کی دھول اُڑائی
اب یہ حسیں اُن کی قبروں پر پھول چڑھانے آ جاتے ہیں
کون سا وہ جادو ہے جس سے غم کی اندھیری، سرد گپھا میں
لاکھ نسائی سانس دلوں کے روگ مٹانے آ جاتے ہیں
زے کے ریشمیں رومالوں کو کس کس کی نظروں سے چھُپائیں
کیسے ہیں وہ لوگ جنھیں یہ راز چھُپانے آ جاتے ہیں
ہم بھی منیرؔ اب دُنیا داری کر کے وقت گزاریں گے
ہوتے ہوتے جینے کے بھی لاکھ بہانے آ جاتے ہیں