عجب رنگ رنگیں قباؤں میں تھے
دل و جان جیسے بلاؤں میں تھے
طلسمات ہونٹوں پہ، آنکھوں میں غم
نئے زیورات اُن کے پاؤں میں تھے
مہک تھی ترے پیرہن کی کہیں
گُلستاں سے شب کی ہواؤں میں تھے
ذرا پی کے دیکھا تو چاروں طرف
مکان و مکیں سب خلاؤں میں تھے
یہ شعلے جو سڑکوں پہ پھرتے ہیں اب
پہاڑوں کی کالی گپھاؤں میں تھے
اگر روک لیتے تو جاتا نہ وہ
مگر ہم بھی اپنی ہواؤں میں تھے
کلر باکس جیسا کھلا تھا منیرؔ
کچھ ایسے ہی منظر فضاؤں میں تھے