وہ جو اپنا یار تھا دیر کا کسی اور شہر میں جا بسا
کوئی شخص اس کے مکان میں کسی اور شہر کا آ بسا
یہی آنا جانا ہے زندگی، کہیں دوستی کہیں اجنبی
یہی رشتہ کار ِ حیات ہے کبھی قرب کا کبھی دور کا
ملے اس میں لوگ رواں دواں کوئی بے وفا کوئی با وفا
کٹی عمر اپنی یہاں وہاں کہیں دل لگا کہ نہیں لگا
کوئی خواب ایسا بھی ہے یہاں جسے دیکھ سکتے ہوں دیر تک
کسی دائمی شب ِ و صل کا کسی مستقل غم یار کا
وہ جو اس جہاں سے گزر گئے کسی اور شہر میں زندہ ہیں
کوئی ایسا شہر ضرور ہے انہی دوستوں ے بھرا ہوا
یونہی ہم منیر پڑے رہے کسی اک مکاں کی پناہ میں
کہ نکل کے اک پناہ سے کہیں اور جانے کا دم نہ تھا