وہ آنکھوں آنکھوں میں بولتی ہے
تو اپنے لہجے میں
کچی کلیوں کی نکہتیں
ادھ کھلے گلابوں کا رس
خنک رت میں شہد کی موج گھولتی ہے
وہ زیرِ لب مسکرا رہی ہو
تو ایسے لگتا ہے
جیسے شام و سحر گلے مل کے ان سنی لے میں گائیں
صبا کی زلفیں کھلیں
ستاروں کے تر سانسوں میں جھنجھنائیں
وہ ابروؤں کی کماں کے سائے
چاہتوں سے اٹی ہوئی دھوپ
راحتوں میں کھلی ہوئی چاندنی
کے موسم نکھارتی ہے
وہ دل میں خواہش کی لہر لیتی ضدیں
خیالوں کی کرچیاں تک اتارتی ہے
ہوا کی آوارگی کے ہمراہ اپنی زلفیں سنوارتی ہے
کبھی وہ اپنے بدن پہ اجلی رتوں کا ریشم پہن کے نکلے
تو کتنے رنگوں کے دائرے
سلوٹوں کی صورت میں ٹوٹتے ہیں
وہ لب ہلائے تو پھول جھڑتے ہیں
اسکی باتیں؟
کہ جیسے کجِ دیارِ یاقوت سے شعاعوں کے ان گنت
تار پھوٹتے ہیں
وہ سر سے پاؤں تلک
دھنک دھوپ چاندنی ہے
دھلے دھلے موسموں کی بے ساختہ
غزل بخت شاعری ہے
( میرے ہنر کے سبھی اثاثوں سے قیمتی ہے )
وہ مجھ میں گھل مل گئی ہے لیکن
ابھی تلک مجھ سے اجنبی ہے
کسی ادھوری گھڑی میں
جب جب وہ بے ارادہ محبتوں کے
چھپے چھپے بھید کھولتی ہے
تو دل یہ کہتا ہے
جس کی خاطر وہ اپنی “سانسیں”
وفا کی سولی پہ تولتی ہے
وہ آسماں زاد، کہکشاں بخت، ( کچھ بھی کہہ لو)
جو اسکی چاہت کا آسرا ہے
وہ میں نہیں ہوں
کوئی تو ہے جو میرے سوا ہے
وہ شہر بھر کے تمام چہروں سے ہٹ کے
اک اور مہرباں ہے
جو اسکی خواہش کا آسماں ہے
( کسے خبر کون ہے کہاں ہے ؟)
مگر مجھے کیا ؟
کہ میں زمیں ہوں
وہ جس کی چاہت میں اپنی سانسیں لٹا رہی ہے
وہ” میں” نہیں ہوں
وہ آنکھوں آنکھوں میں بولتی ہے
محسن نقوی