کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں، دلِ غم دیدہ کہیں تھا
کس رات نظر کی ہے سوئے چشمکِ انجم
آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا
آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے ، لیکن
ہونٹھوں پہ مرے جب نفسِ باز پسیں تھا
اب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ
جودرد و الم تھا، سو کہے تُو کہ کہ وہیں تھا
جانا نہیں کچھ، جز غزل آکر کے جہاں میں
کُل میرے تصرف میں یہی قطعہ زمیں تھا
نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا
جن لوگوں کے کل مُلک یہ سب زیرِ نگیں تھا
مسجد میں امام آج ہوا آ کے کہاں سے
کل تک تو یہی میر خرابات نشیں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں، دلِ غم دیدہ کہیں تھا
کس رات نظر کی ہے سوئے چشمکِ انجم
آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا
آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے ، لیکن
ہونٹھوں پہ مرے جب نفسِ باز پسیں تھا
اب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ
جودرد و الم تھا، سو کہے تُو کہ کہ وہیں تھا
جانا نہیں کچھ، جز غزل آکر کے جہاں میں
کُل میرے تصرف میں یہی قطعہ زمیں تھا
نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا
جن لوگوں کے کل مُلک یہ سب زیرِ نگیں تھا
مسجد میں امام آج ہوا آ کے کہاں سے
کل تک تو یہی میر خرابات نشیں تھا