نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا
تمہارے بعد بھی میں نے کئی کو چھوڑ دیا
ہوں جو بھی جان کی جاں وہ گمان ہوتے ہیں
سبھی تھے جان کی کی جاں اور سبھی کو چھوڑ دیا
شعور ایک شعورِ فریب ہے سو تو ہے
غرض کہ آگہی، ناآگہی کو چھوڑ دیا
خیال و خواب کی اندیشگی کے سُکھ جھیلے
خیال و خواب کی اندیشگی کو چھوڑ دیا
*
مہک سے اپنی گَلِ تازہ مست رہتا ہے
وہ رنگِ رُخ ہے کہ خود غازہ مست رہتا ہے
نگاہ سے کبھی گزرا نہیں وہ مست انداز
مگر خیال سے، اندازہ مست رہتا ہے
کہاں سے ہے رَسدِ نشہ، اس کی خلوت میں
کہ رنگ مست کا اندازہ مست رہتا ہے
یہاں کبھی کوئی آیا نہیں مگر سرِ شام
بس اک گمان سے دروازہ مست رہتا ہے
مجھے خیال کی مستی میں کس کا اندازہ
خدا نہیں جو باندازہ مست رہتا ہے
تمہارے بعد بھی میں نے کئی کو چھوڑ دیا
ہوں جو بھی جان کی جاں وہ گمان ہوتے ہیں
سبھی تھے جان کی کی جاں اور سبھی کو چھوڑ دیا
شعور ایک شعورِ فریب ہے سو تو ہے
غرض کہ آگہی، ناآگہی کو چھوڑ دیا
خیال و خواب کی اندیشگی کے سُکھ جھیلے
خیال و خواب کی اندیشگی کو چھوڑ دیا
*
مہک سے اپنی گَلِ تازہ مست رہتا ہے
وہ رنگِ رُخ ہے کہ خود غازہ مست رہتا ہے
نگاہ سے کبھی گزرا نہیں وہ مست انداز
مگر خیال سے، اندازہ مست رہتا ہے
کہاں سے ہے رَسدِ نشہ، اس کی خلوت میں
کہ رنگ مست کا اندازہ مست رہتا ہے
یہاں کبھی کوئی آیا نہیں مگر سرِ شام
بس اک گمان سے دروازہ مست رہتا ہے
مجھے خیال کی مستی میں کس کا اندازہ
خدا نہیں جو باندازہ مست رہتا ہے