Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عیشِ اُمید ہی سے خطرہ ہے دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عیشِ اُمید ہی سے خطرہ ہے دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے

    عیشِ اُمید ہی سے خطرہ ہے
    دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے

    ہے کچھ ایسا کہ اس کی جلوت میں
    ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے

    جس کے آغوش کا ہوں دیوانہ
    اس کے آغوش ہی سے خطرہ ہے

    یاد کی دھوپ تو ہے روز کی بات
    ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے

    ہے عجب کچھ معاملہ درپیش
    عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

    شہر غدار جان لے کہ تجھے
    ایک امروہوی سے خطرہ ہے

    ہے عجب طورِ حالتِ گریہ
    کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے

    حال خوش لکھنو کا دلّی کا
    بس انہیں مصحفی سے خطرہ ہے

    آسمانوں میں ہے خدا تنہا
    اور ہر آدمی سے خطرہ ہے

    میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے
    تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے

    آج بھی اے کنارِ بان مجھے
    تیری اک سانولی سے خطرہ ہے

    ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں
    اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے

    جونؔ ہی تو ہے جونؔ کے درپے
    *میر* کو *میر* ہی سے خطرہ ہے

    اب نہیں کوئی بات خطرے کی
    اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

Working...
X