نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
نہ آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے
ستاتے نہیں وہ تو ان کی طرف سے
خود اپنے ستانے کو جی چاہتا ہے
کوئی مصلحت روک دیتی ہے ورنہ
پلٹ دیں زمانے کو ، جی چاہتا ہے
تجھے بھول جانا تو ہے غیر ممکن
مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے
تواضع کرائے عشق! چند آنسوؤں سے
بہت مسکرانے کو جی چاہتا ہے
بہت دیر تک چھپ کے تیری نظر سے
تجھے دیکھ پانے کو جی چاہتا ہے
تری آنکھ کو بھی جو بے خواب کر دے
وہ فتنہ جگانے کو جی چاہتا ہے
حسیں تیری آنکھیں، حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
جگر اب تو وہ ہی یہ کہتے ہیں مجھ سے
تیرے ناز اٹھانے کو جی چاہتا ہے
٭٭٭