رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں، انہیں ہوش نہیں
میکدہ ساز ہوں میں، میکدہ بر ہوش نہیں
کونسا جلوہ یہاں آتے ہی بے ہوش نہیں
دل مرا دل ہے، کوئی ساغر سر جوش نہیں
حسن سے عشق جدا ہے نہ جدا عشق سے حسن
کونسی شئے ہے، جو آغوش در آغوش نہیں؟
مٹ چکے ذہن سے سب یاد گذشتہ کے نقوش
پھر بھی اک چیز ہے ایسی کہ فراموش نہیں
کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں !
عشق گر حسن کے جلووں کا ہے مرہون کرم
حسن بھی عشق کے احساں سے سبکدوش نہیں
محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش نہیں
مل کے اک بار گیا تو ہے کوئی، جس سے جگر
مجھ کو یہ وہم ہے جیسے وہ ہر آغوش نہیں
٭٭٭