ہزاروں قربتوں پر یوں مرا مہجور ہو جانا
جہاں سے چاہنا ان کا وہیں سے دور ہو جانا
نقاب روئے نادیدہ کا از خود دور ہو جانا
مبارک اپنے ہاتھوں حسن کو مجبور ہو جانا
سراپا دید ہو کر غرق موج نور ہو جانا
ترا ملنا ہے خود ہستی سے اپنی دور ہو جانا
نہ دکھلائے خدا ، اے دیدہ تر دل کی بربادی
جب ایسا وقت آئے پہلے تو بے نور ہو جانا
جو کل تک لغزش پائے طلب مسکراتے تھے
وہ دیکھیں آج ہر نقش قدم کا طور ہو جانا
محبت کیا ہے ، تاثیر محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترا مجبور کر دینا،مرا مجبور ہو جانا
محبت عین مجبوری سہی لیکن یہ کیا باعث
مجھے باور نہیں آتا مرا مجبور ہو جانا
نگاہ ناز کو تکلیف جنبش تا کجا آخر
مجھی پر منحصر کر دو مرا مجبور ہو جانا
جگر وہ حسن یکسوئی کا منظر یاد ہے اب تک
نگاہوں کا سمٹنا اور ہجوم نور ہو جانا
٭٭٭