وہ ارمانوں کی اجڑی ہوئی بستی
پھر آج آباد ہوتی جا رہی ہے
جہاں سے کاروان شوق گزرے
نہ جانے کتنی مدت ہو گئی ہے
پلا تھا صحبت اہل حرم میں
میں برسوں سے تبستاں آشنا تھا
بنی لیکن خدا سے نہ بتوں سے
میں دونوں آستانوں سے خفا تھا
مگر کچھ اور ہی عالم ہے اب تو
میں اپنی حیرتوں میں کھو گیا ہوں
مجسم ہو گئے ہیں حسن و جبروت
مجھے لینا میں بہکا جا رہا ہوں
کوئی یزداں ہو بت ہو آدمی ہو
اضافی قیمتوں سے ماورا ہوں
میں پہلی بار سجدہ کر رہا ہوں