طوفان سامنے ہے کنارے کدھر گئے
کشتی میں ہم سفر تھے ہمارے کدھر گئے
آنکھوں میں ظلمتوں کو اتارا تھا کس لئے
اب سے پوچھتے ہیں ستارے کدھر گئے
دیکھا پلٹ کے الٹے بگولے تھے چار سو
سوچا جو لوگ ساتھ سارے کدھر گئے
مٹی امین ہے تو بتائے ہمیں کبھی
لاکھوں گہر ہیں اس میں اتارے کدھر گئے
شب بھر سوا ل دل میں کھٹکتا رہا مرے
نیندیں گنوا کے خواب جو ہارے کدھر گئے
ناؤ تو پانیوں کی تہوں میں اتر گئی
پتوار ‘ بادبان کے سہارے کدھر گئے
دل کی زمیں چٹخنے کو اب آگئی بتول
دریاؤں لے وہ نرم سے دھارے کدھر گئے
فاخرہ بتوُل