Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ab kay safar hi or tha

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ab kay safar hi or tha


    اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے
    دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے
    حشر کے دن کا غلغلہ، شہر کے بام و دَر میں تھا
    نگلے ہوئے سوال تھے، اُگلے ہوئے جواب تھے
    اب کے برس بہار کی، رُت بھی تھی اِنتظار کی
    لہجوں میں سیلِ درد تھا، آنکھوں میں اضطراب تھے
    خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
    پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے!
    سیل کی رہگزر ہوئے، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
    کیسی عجیب پیاس تھی، کیسے عجب سحاب تھے!
    عمر اسی تضاد میں، رزقِ غبار ہو گئی
    جسم تھا اور عذاب تھے، آنکھیں تھیں اور خواب تھے
    صبح ہوئی تو شہر کے، شور میں یوں بِکھر گئے
    جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے
    آنکھوں میں خون بھر گئے، رستوں میں ہی بِکھر گئے
    آنے سے قبل مر گئے، ایسے بھی انقلاب تھے
    ساتھ وہ ایک رات کا، چشم زدن کی بات تھا
    پھر نہ وہ التفات تھا، پھر نہ وہ اجتناب تھے
    ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے
    یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے
    اَبر برس کے کھُل گئے، جی کے غبار دھُل گئے
    آنکھ میں رُو نما ہوئے، شہر جو زیرِ آب تھے
    درد کی رہگزار میں، چلتے تو کِس خمار میں
    چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے

    parveen shakir
    Hacked by M4mad_turk
    my instalgram id: m4mad_turk
Working...
X