ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے
کوئی سیف تھے کہ بازار میسر آتے
کیسا ہر جائی ہے مقبول بھی کس درجہ ہے
کاش ہم کو ترے اطوار میسر آتے
اس گلی میں ابھی تل دھرنے کی گنجائش ہے
اور عاشق تجھے دوچار میسر آتے
کوچہ گردی سے ہی فرصت نہیں دن رات ہمیں
گھر کے ہم ہوتے تو غمخوار میسر آتے
دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے
ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟
ایسا ہوتا کہ کسی حرف میں جاں پڑ جاتی
کاش پیرایہ اظہار میسر آتے
اپنے سینے کا یہ ننھا سا دیا کام آیا
نہ یہ جلتا نہ یہ اشعار میسر آتے
٭٭٭