فرازؔ اب کوئی سَودا کوئی جُنوں بھی نہیں
مگر قرار سے دِن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
نہ جانے کیوں میری آنکھیں برسنے لگتی ہیں
جو سچ کہوں تو کچھ ایسا اُداس ہُوں بھی نہیں
میری زبان کی لُکنت سے بدگمان نہ ہو
جو تُو کہے تو تجھے عمْر بھر مِلُوں بھی نہیں
فرازؔ جیسے دیا قُربتِ ہوا چاہے
وہ پاس آئے تو مُمکن ہے میں رہُوں بھی نہیں
مگر قرار سے دِن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
نہ جانے کیوں میری آنکھیں برسنے لگتی ہیں
جو سچ کہوں تو کچھ ایسا اُداس ہُوں بھی نہیں
میری زبان کی لُکنت سے بدگمان نہ ہو
جو تُو کہے تو تجھے عمْر بھر مِلُوں بھی نہیں
فرازؔ جیسے دیا قُربتِ ہوا چاہے
وہ پاس آئے تو مُمکن ہے میں رہُوں بھی نہیں