غزل
فریاد کروں مگر کہاں تک
جب ساتھ نہ دے سکے زباں تک
آنسو تو میں پی رہا ہوں، لیکن
ممنوع کرو نہ ہچکیاں تک
گونجا وہ سکوت پَو پھٹے کا
مجھ کو نہ سنائی دی اذا ں تک
انسان، خدا کی جستجو میں
بھٹکا ہے زمیں سے آسماں تک
پھیلا دیا ایک دامِ ابہام
پھولوں نے قفس سے آشیاں تک
اِک اور محلک، پسِ فلک تھا
پہنچی ہے مری نظر جہاں تک
یہ ضبط نہیں ہے، خود کشی ہے
جب دل سے نہ اٹھ سکے دھواں تک
اندہ ہیں ہنر، ہنروروں کے
قبروں کے تو مٹ گئے نشاں تک
(احمد ندیم قاسمی)
فریاد کروں مگر کہاں تک
جب ساتھ نہ دے سکے زباں تک
آنسو تو میں پی رہا ہوں، لیکن
ممنوع کرو نہ ہچکیاں تک
گونجا وہ سکوت پَو پھٹے کا
مجھ کو نہ سنائی دی اذا ں تک
انسان، خدا کی جستجو میں
بھٹکا ہے زمیں سے آسماں تک
پھیلا دیا ایک دامِ ابہام
پھولوں نے قفس سے آشیاں تک
اِک اور محلک، پسِ فلک تھا
پہنچی ہے مری نظر جہاں تک
یہ ضبط نہیں ہے، خود کشی ہے
جب دل سے نہ اٹھ سکے دھواں تک
اندہ ہیں ہنر، ہنروروں کے
قبروں کے تو مٹ گئے نشاں تک
(احمد ندیم قاسمی)