اے دل آ ، اپنے دلِ آزار کو ، پھر یاد کریں
بُھولنے والے جفا کار کو ، پھر یاد کریں
ایک ایک پھول کو آنکھوں سے لگا کر روئیں
اُس بہارِ گُل و گلزار کو ، پھر یاد کریں
دیدۂ نرگسِ بیمار کو کر دیں پُر آب
ساغرِ دیدۂ سرشار کو ، پھر یاد کریں
چاند کی کرنوں میں اشکوں کے پرو دیں موتی
اپنے اُس آئینہ رُخسار کو ، پھر یاد کریں
چشمِ مینا سے اُبلنے لگیں اشکِ حسرت
اثرِ مستیِ رفتار کو ، پھر یاد کریں
”اختر شیرانی“